1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بارسلونا کا گرجا گھر، روزے داروں کا میزبان

3 مئی 2021

یورپ کے کئی ملکوں میں کورونا وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ اس دوران بارسلونا کے سانتا انا چرچ نے شہر کے مسلمانوں کے لیے اپنے کلوئسٹرز کو افطاری اور تراویح کی نماز ادا کرنے کے لیے کھول دیا ہے۔

Sehenswürdigkeiten in Deutschland
تصویر: Fotolia/PHB.cz

اسپین کے شہر بارسلونا کے ایک گرجا گھر نے مذہبی رواداری کی مثال قائم کرتے ہوئے مسلم افراد کو اپنی محراب دار چھت کے علاقے کو استعمال کرنے کا موقع دیا ہے۔

کورونا بحران کے دوران ماہ رمضان کا آغاز

 پچاس سے ساٹھ کے درمیان مسلمان بارسلونا کے سانتا انا چرچ  کے کلوئسٹرز میں پہنچ کر ہر شام افطاری کرتے ہیں اور پھر عبادت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ کسی گرجا گھر میں محراب دار چھت کے نیچے والے حصے کو کلوئسٹرز کہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے آنے والے مسلمانوں کو کورونا لاک ڈاؤن ضوابط کا احترام بھی کرنا ہوتا ہے۔ ان افراد میں زیادہ تر مسلمان وہ ہیں جو بیروزگار ہیں۔ افطاری کے لیے مسلمان خاندانوں کی جانب سے رضا کارانہ طور پر گھر کا پکا ہوا لذیز کھانا پیش کیا جاتا ہے۔

سماجی فاصلہ اور افطار کے لوازماتتصویر: Hussain Ali/Pacific Press/picture alliance

کورونا اور رمضان

رواں برس یورپ کے مختلف ممالک کی عوام کے ساتھ ساتھ مسلمان آبادی کو بھی گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ سخت لاک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ ایسے میں مسلمان اقلیت رمضان میں کورونا لاک ڈاؤن کے ضوابط سے پریشانی کا سامنا کر رہی ہے۔ رمضان میں مسلم خاندانوں اور دوستوں کے حلقے شام کے وقت روزے کی افطاری ایک ساتھ کرنے کو احسن خیال کرتے ہیں۔

’روزہ رکھیں‘ کم خوراکی قوت مدافعت بڑھاتی ہے!

سانتا انا چرچ

پتھروں سے تعمیر شدہ صدیوں پرانے تاریخی گرجا گھر کی انتظامیہ نے کلوئسٹرز  کے اندرونی حصے نماز کی ادائیگی کے لیے کھول دیے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں اس گرجا گھر کی جانب سے اس پیشکش کی یورپی مسلم حلقوں نے پرزور الفاظ میں پذیرائی کی ہے۔ گرجا گھر کے سینیئر پادری فادر پیو سانچیز عمومی طور پر مختلف ادیان کے ماننے والوں کے ساتھ خیالات کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں اور اسے وہ ایک ساتھ مل جُل کر رہنے کا عمل بھی قرار دیتے ہیں۔ مسلمانوں کو عبادت کی اجازت ملنے کے بعد سانتا انا چرچ کے مرکزی وسیع صحن میں لگے مالٹے کے درختوں کے جھنڈ تلے باقاعدہ آذان بھی دی جاتی ہے۔

جرمنی: کیا لاک ڈاؤن میں رمضان نے مسلمانوں کی زندگی آسان کر دی ہے؟

‘ہم سب ایک جیسے ہیں‘

مراکش سے تعلق رکھنے والے ستائیس سالہ حافظ ابراہیم نے کیتھولک چرچ کی جانب سے افطاری و نماز کی ادائیگی کی پیشکش کے حوالے سے کہا کہ کوئی کیتھولک ہو یا کسی اور مذہب کا ماننے والا، اب میں مسلمان ہوں لیکن حقیقت میں سبھی ایک جیسے ہیں۔ بربر نسل کے حافظ ابراہیم چرچ میں دی جانے والی افطاری میں شریک ہوتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سب بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسری کی مدد سب سے اہم ہے۔

ایک جرمن مسجد میں سماجی فاصلے کی پابندی کا احترام اور نمازیتصویر: dpa/picture alliance

افطار کا انتظام

بارسلونا میں قائم کاتالان ایسوسی ایشن برائے مراکشی خواتین کی صدر فوزیہ شیتی محدود پیمانے پر افطار کا بندوبست کرتی تھیں لیکن ایک بڑی متبادل جگہ ملنے پر وہ خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے لوگ بہت خوش ہوئے ہیں کہ مسلمان ایک کیتھولک گرجا گھر میں افطار کے لیے جا رہے ہیں۔ فوزیہ شیتی کا مزید کہنا ہے کہ مذاہب متحد رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ چرچ کا کلوئسٹرز کھلا اور ہوا دار ہے اور اس میں سماجی فاصلے کے ضابطے کا احترام بھی ممکن ہے۔

ع ح، ع ا ( روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں