بارہ لاکھ افغان شہری مبینہ طور پر جنگی جرائم کا شکار
صائمہ حیدر
16 فروری 2018
افغانستان میں ممکنہ جنگی جرائم کے حوالے سے انٹرنیشنل کریمینل کورٹ نے مواد جمع کرنا شروع کر رکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بارہ لاکھ کے قریب افغان باشندوں نے جنگی جرائم کا شکار ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
اشتہار
جرائم کی بین الاقوامی عدالت نے افغانستان میں ممکنہ طور پر ہوئے جنگی جرائم کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کا سلسلہ تین ماہ قبل شروع کیا تھا۔
انسانی حقوق اور تشدد کے خاتمے کے لیے سرگرم ایک تنظیم سے تعلق رکھنے والے عبدالودود پدرم کا کہنا ہے کہ بارہ لاکھ کے قریب افغان باشندوں کی جانب سے جمع کرائے گئے بیانات کے مطابق وہ نہ صرف طالبان اور اسلامک اسٹیٹ جیسے جہادی گروپوں کی انتہا پسندی کا نشانہ بنے بلکہ افغان فورسز، امریکی قیادت میں اتحادی افواج اور مقامی خفیہ اداروں کے مبینہ مظالم کا شکار بھی ہوئے۔
افغان شہریوں کے بیانات کی روشنی میں اب جرائم کی بین الاقوامی عدالت کے جج صاحبان یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا یہ جنگی جرائم کے یہ الزامات تفتیش طلب ہیں۔ ابھی یقینی طور سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس بارے میں فیصلہ کب کیا جائے گا۔
پدرم نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ یہ بیانات بیس نومبر 2017 سے اکتیس جنوری سن 2018 کے درمیانی عرصے میں یورپ اور افغانستان میں قائم تنظیموں نے جمع کیے اور آئی سی سی کو بھیجے۔
پدرم نے مزید کہا،’’ یہ حیران کن ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں شہریوں نے بیانات دیے ہیں۔ یہ صرف چند مثالیں نہیں بلکہ بہت سے دیہات کی نمائندگی ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح افغانستان میں انصاف کا نظام جنگی جرائم کے شکار افراد اور اُن کے خاندانوں کو انصاف نہیں دے پا رہا ہے۔‘‘
بین الاقوامی کریمینل کورٹ نے اُن افراد کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں جو مبینہ طور پر ان جرائم کا شکار ہوئے۔ پدرم کے مطابق کئی ایک طاقتور جنگجو جو سن 2001 میں افغانستان میں امریکی مداخلت اور طالبان کے خاتمے کے بعد اقتدار میں آئے، وہ بھی جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں میں شامل ہیں۔ تاہم پدرم نے کسی بھی جنگجو گروپ کا براہ راست نام لینے سے احتراز کیا۔
گزشتہ برس موت کی دھمکیاں ملنے کے بعد عبدالودود پدرم کابل چھوڑ گئے تھے۔ پدرم کا کہنا تھا،’’ تمام جنگجو یہاں ہیں۔ مجھے بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔ صبح گھر سے جاتے ہوئے میں اپنے بیٹے اور بیوی کو الوداعی سلام کر کے نکلتا ہوں کیونکہ میں نہیں جانتا کہ کب اور کہاں میرے ساتھ کیا حادثہ پیش آئے گا۔‘‘
افغانستان: ’’جنگ میں زندگی‘‘
ایرانی فوٹوگرافر مجید سعیدی کی تصویریں یہ بتاتی ہیں کی جنگ نے عام افغانیوں کی زندگیوں کو کس طرح متاثر کیا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
کھلونا نہیں
یہ کوئی کھلونا نہیں ہے۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے جنوب میں دو بچیاں مصنوعی بازو سے کھیل رہی ہیں۔ اس تصویر سے ایرانی فوٹوگرافر مجید سعیدی کی تصویروں کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بہترین فوٹوگرافر
مجید سعیدی کی تصویریں خبروں کے پیچھے چھپی کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ ایسی کہانیاں جو صرف خوف اور اذیتوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ سعیدی کو کئی دیگر انعامات کے علاوہ سن 2013 میں ’ورلڈ پریس فوٹو ایوارڈ‘ سے بھی نوازہ جا چکا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بچوں کی دنیا
سعیدی کی زیادہ تر تصاویر میں بچوں کی زندگی اور ان کے درپیش مشکلات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ بچہ بارودی سرنگ کے پھٹنے کی وجہ سے اپنے دونوں بازوؤں سے محروم ہو گیا تھا۔
تصویر: Majid Saeedi
واضح نشانیاں
نہ صرف چہرے اور ان پر موجود زخموں کے نشانات بلکہ افغانستان کی تباہ حال عمارتیں بھی جنگ کی تاریخ بیان کرتی ہیں۔ گھروں کے کھنڈرات، ہر جگہ گولیوں کے سوراخوں اور تباہ شدہ عمارتوں سے جنگ کی تباہی عیاں ہو رہی ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
واضح تضاد
افغانستان کی خوبصورت سرزمین پر جگہ جگہ جنگ کے دوران ہونے والے تباہی بھی نمایاں ہے۔ ایک ہی جگہ پر خوبصورتی اور دل کو ہلا دینے والے خوفناک مناظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
نشے کی لت
نشے کی لت افغانستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ نوّے فیصد افیون پیدا کرنے والا ملک ہے اور یہاں نشے کے عادی افراد کی تعداد بھی اسی لحاظ سے زیادہ ہے۔ افغانستان میں نشے کی لت میں مبتلا بچوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے لیکن اقوام متحدہ کے اعداو شمار کے مطابق وہاں تین لاکھ بچے نشہ کرتے ہیں۔
تصویر: Majid Saeedi
پولیس پریڈ
کابل میں صبح سویرے پولیس پریڈ: گزشتہ کئی برسوں سے مغربی حکومتیں افغان پولیس کی تربیت کا عمل جاری رکھے ہوئی ہیں۔
تصویر: Majid Saeedi
افغان تعلیم
ایک مدرسے کے استاد سے سزا ملنے پر بچے کے چہرے پر درد دیکھا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں اسکولوں کا یکساں نظام موجود نہیں ہے۔ زیادہ تر بچوں کو معاشی حالات کی وجہ سے اسکولوں میں جانے کی بجائے کام کاج پر بھیجا جاتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
تعلیمی زوال
افغانستان میں سن 1979ء سے جاری ’خانہ جنگی‘ نے وہاں کے بچوں اور نوجوانوں کی صورتحال کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 72 فیصد مردوں اور 93 فیصد خواتین کے پاس اسکول کی سند نہیں ہے۔ مجموعی طور پر اس ملک کی 70 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
برقعہ اور باربی
خواتین کے لیے مدد: ملائیشیا کی ایک غیر سرکاری تنظیم خواتین کو مقامی سطح پر گڑیا تیار کرنے کے کورسز کرواتی ہے۔ اس تربیت کا مقصد خواتین کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہیں تاکہ وہ اپنا خرچ خود اٹھا سکیں۔
تصویر: Majid Saeedi
پہلوانی کا شوق
افغانی ویٹ لفٹر ایک مقابلے کے بعد آرام کر رہا ہے۔ طالبان کے دور حکومت میں باڈی بلڈنگ جیسے کھیلوں پر سختی سے پابندی عائد تھی۔ یہ کھیل ایک مرتبہ پھر افغانستان بھر میں مقبول ہو رہا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
کھنڈرات میں فصل
گزشتہ تیس برسوں میں سویت یونین اور نیٹو افواج کی جنگ نے جگہ جگہ اپنے نشانات چھوڑے ہیں۔ افغانیوں کو روزانہ ان نشانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
لازمی مضمون قرآن
قرآن کو حفظ کرنے کے لیے انتہائی توجہ اور پرسکون ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ افغانستان کے جنوبی شہر میں ایک لڑکا قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے۔
تصویر: Majid Saeedi
مقبول کھیل
عوامی سطح پر جانوروں کے مقابلے افغان روایات کا لازمی جزو ہیں۔ ملک بھر میں مرغوں اور کتوں کے مقابلوں کا انعقاد کروایا جاتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بند زندگی
افغانستان میں ذہنی طور پر بیمار افراد کو غیر انسانی حالات اور معاشرے سے الگ تھلگ ہو کر رہنا پڑتا ہے۔ مغربی شہر ہرات کے ایک پاگل خانے میں مریضوں کو زنجیروں میں باندھ کر رکھا گیا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
حقیقی ویرانی
اکرم کو بازوؤں کی بجائے دو مصنوعی اعضاء کا سہارا ہے۔ رات کو سوتے وقت وہ ان ’اعضاء‘ کو دیوار کے ساتھ لٹکا دیتا ہے۔ اکرم ان ہزاروں افغان بچوں میں سے ایک ہے، جن کے مقدر ایسے ہی ہیں۔ وہ مقدر جنہیں ایرانی فوٹو گرافر اپنی تصویروں کے ذریعے چہرے فراہم کر رہا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
فوٹو گرافر کا مشن
مجید سعیدی کے بقول شروع ہی سے ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ انسانی تشدد کو تصویروں کی مدد سے منظر عام پر لایا جائے۔ افغان جنگ کو موضوع بنانے کا خیال انہیں اس وقت آیا، جب وہ ریڈ کراس کے ساتھ کام کرتے ہوئے جنگ کے متاثرین سے ملے۔