یمنی علیحدگی پسندوں نے عبوری دارالحکومت عدن میں واقع صدارتی محل کا محاصرہ کر لیا ہے، ان باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جاری تازہ لڑائی کے باعث اس عرب ملک کا بحران مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے یمنی فوج کے حوالے سے بتایا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں نے تازہ کارروائی کرتے ہوئے تیس جنوری بروز منگل عدن میں واقع صدارتی محل کا محاصرہ کر لیا ہے۔ اس بیان کے مطابق اس پیشرفت کے نتیجے میں سعودی عرب کے حمایت یافتہ یمنی صدر منصور ہادی کی حامی انتظامیہ اس وقت بظاہر اس محل میں نظر بند ہو کر رہ گئی ہے۔
یمن میں سعودی نواز حکومت کی حامی فوج کے ایک اعلیٰ کمانڈر نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا، ’’صدارتی محل علیحدگی پسندوں کے محاصرے میں ہے اور اب اس کے مرکزی دروازے کا کنٹرول بھی ان باغیوں نے سنبھال لیا ہے۔ اس وقت اس محل کے اندر موجود لوگ غیر سرکاری طور پر نظر بند ہو چکے ہیں۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ جنوبی یمن میں فعال سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) کے علیحدگی پسندوں کو متحدہ عرب امارت کی حمایت اور مدد حاصل ہے۔ اس تازہ تنازعہ سے قبل یہ باغی اور حکومتی فورسز مل کر سعودی عسکری اتحاد کی سرپرستی میں ایران نواز حوثی باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف تھے۔
گزشتہ ویک اینڈ پر جنوبی یمن میں فعال سدرن ٹرانزیشنل کونسل (ایس ٹی سی) سے وابستہ علیحدگی پسندوں اور یمنی حکومت کے حامی دستوں کے مابین جھڑپوں کا آغاز ہوا تھا۔ بین الاقوامی امدادی ادارے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے مطابق اب تک اس لڑائی کی وجہ سے کم ازکم چھتیس افراد ہلاک جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
حوثی باغیوں کی طرف سے سن دو ہزار چودہ میں دارالحکومت صنعا پر قبضے کے بعد سے یمن کے بندرگاہی شہر عدن کو عبوری دارالحکومت بنا دیا گیا تھا۔ تب سے منصور ہادی کی انتظامیہ اسی شہر سے ملکی انتظام چلانے کی کوشش میں تھی۔ یمن میں ملکی فوج اور حوثی باغیوں کے مابین جاری خانہ جنگی کے باعث صدر منصور ہادی سعودی عرب میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک حکومتی اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ یمن کے وزیر اعظم احمد عبید بن دغر اور ان کے متعدد وزراء صدارتی محل میں موجود ہیں اور یہ کہ باغیوں نے اس محل کا محاصرہ نہیں کیا ہے۔ تاہم سکیورٹی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم اور ان کے وزراء باغیوں کی کارورائیوں کی وجہ سے سعودی عرب فرار ہونے کی تیاری میں ہیں۔
ان باغیوں نے ملکی صدر منصور ہادی سے کہا تھا کہ وہ وزیر اعظم احمد عبید بن دغر کی حکومت کو تحلیل کر دیں کیونکہ وہ بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ اس حوالے سے ان باغیوں نے اتوار تک کی مہلت دی تھی، جو ختم ہونے کے بعد ان باغیوں نے عسکری کارورائی شروع کر دی اور تین دنوں میں ہی مبینہ طور پر صدارتی محل کا محاصرہ کر لیا۔
اس صورتحال میں سعودی عسکری اتحاد نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ طاقت کے ناجائز استعمال سے گریز کریں۔ اس اتحاد کی طرف منگل کے دن جاری ہونے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یمن میں استحکام اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کی خاطر تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔ دوسری طرف سکیورٹی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ یمن میں اس نئی پیشرفت سے فائدہ ایران نواز حوثی باغیوں کو ہی ہو گا، جو پہلے ہی ملک کے شمالی علاقوں پر قابض ہیں۔
یاد رہے کہ نوے کی دہائی سے قبل جنوبی یمن پیپلز ڈیموکریٹک ری پبلک آف یمن کے نام سے ایک آزاد سوشلسٹ ریاست تھی، جس کا سن انیس سو نوے میں جمہوریہ یمن کے ساتھ الحاق ہو گیا تھا۔ تاہم اب بھی وہاں کچھ حلقے ایک آزاد ریاست کے حق میں ہیں۔
یمنی خانہ جنگی شدید سے شدید تر ہوتی ہوئی
یمنی خانہ جنگی کے باعث یہ عرب ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اس بحران سے شہری آبادی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
یمنی بحران کا آغاز
حوثی اور صنعاء حکومت کے مابین تنازعہ اگرچہ پرانا ہے تاہم سن دو ہزار چار میں حوثی سیاسی اور جنگجو رہنما حسین بدرالدین الحوثی کے حامیوں اور حکومتی فورسز کے مابین مسلح تنازعات کے باعث ملک کے شمالی علاقوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں اس تنازعے میں شدت پیدا ہو گئی تھی۔ حوثی رہنما سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
مصالحت کی کوششیں
سن دو ہزار چار تا سن دو ہزار دس شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری سن دو ہزار دس میں فریقن کے مابین سیز فائر کی ایک ڈیل طے پائی تاہم دسمبر سن دو ہزار دس میں معاہدہ دم توڑ گیا۔ اسی برس حکومتی فورسز نے شبوہ صوبے میں حوثیوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کر دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
عرب اسپرنگ اور یمن
دیگر عرب ممالک کی طرح یمن میں بھی حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے اور اس کے نتیجے میں صدر علی عبداللہ صالح سن دو ہزار گیارہ میں اقتدار سے الگ ہو گئے اور اس کے ایک برس بعد ان کے نائب منصور ہادی ملک کے نئے صدر منتخب کر لیے گئے۔ یمن میں سیاسی خلا کے باعث اسی دوران وہاں القاعدہ مزید مضبوط ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
قومی مذاکرات کا آغاز
جنوری سن دو ہزار چودہ میں یمن حکومت نے ایک ایسی دستاویز کو حتمی شکل دے دی، جس کے تحت ملک کے نئے آئین کو تخلیق کرنا تھا۔ اسی برس فروری میں ایک صدارتی پینل نے سیاسی اصلاحات کے تحت ملک کو چھ ریجنز میں تقسیم کرنے پر بھی اتفاق کر لیا۔ تاہم حوثی باغی ان منصوبوں سے خوش نہیں تھے۔ تب سابق صدر صالح کے حامی بھی حوثیوں کے ساتھ مل گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
حوثی باغیوں کی صںعاء پر چڑھائی
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں حوثیوں نے دارالحکومت پر چڑھائی کر دی اور اس شہر کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جنوری سن دو ہزارپندرہ میں ایران نواز ان شیعہ باغیوں نے مجوزہ آئین کو مسترد کر دیا۔ اسی برس مارچ میں دوہرا خودکش حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 137 افراد مارے گئے۔ یمن میں داعش کی یہ پہلی کارروائی قرار دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایران حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
سعودی عسکری اتحاد کی مداخلت
مارچ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق کے اداروں نے سعودی اتحاد کی عسکری کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے باعث شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نو رکنی اس اتحاد کی کارروائیوں کے باوجود بھی حوثی باغیوں کو شکست نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
اقوام متحدہ کی کوششیں
اقوام متحدہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی فریقین کے مابین مصالحت کی کوشش میں سرگرداں رہا تاہم اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ اپریل سن دو ہزار سولہ میں اقوام متحدہ کی کوششوں کے باعث ہی حوثی باغیوں اور صنعاء حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تاہم عالمی ادارے کی یہ کوشش بھی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
شہری آبادی کی مشکلات
یمنی خانہ جنگی کے نتیجے میں ملکی انفرااسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ سے اب تک اس بحران کے باعث دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
طبی سہولیات کی عدم دستیابی
یمن میں 2.2 ملین بچے کم خوارکی کا شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed
قیام امن کی امید نہیں
اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن کا بحران حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ سعودی عرب بضد ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ دوسری طرف حوثی باغی اپنے اس مطالبے پر قائم ہیں کہ یونٹی حکومت تشکیل دی جائے، جو واحد سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اطراف اپنے موقف میں لچک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں۔