بریگزٹ ڈیل کے ساتھ ڈیڈ لائن پر عمل درآمد اب ممکن نہیں رہا
23 اکتوبر 2019
کیا آج سے آٹھ روز بعد برطانیہ واقعی یورپی یونین سے نکل جائے گا؟ بریگزٹ کے ایک باقاعدہ معاہدے کے ساتھ اکتیس اکتوبر تک کی موجودہ ڈیڈ لائن پر عمل درآمد اب لندن حکومت کے لیے ممکن نہیں رہا۔
’اب ہمیں اور زیادہ غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے،‘ وزیر اعظم بورس جانسنتصویر: picture-alliance/dpa/UK Parliament/J. Taylor
اشتہار
جو لوگ اب تک یہ پوچھ رہے ہیں کہ آیا یکم نومبر کو برطانیہ یورپی یونین کا رکن نہیں ہو گا، ان کے لیے جواب یہ ہے کہ 31 اکتوبر کو ختم ہونے والی بریگزٹ کی موجودہ ڈیڈ لائن پر عمل درآمد لندن حکومت کے لیے بریگزٹ کے معاہدے کے ساتھ تو اب ناممکن ہے۔ تاہم بغیر کسی ڈیل کے، جسے 'نو ڈیل بریگزٹ‘ بھی کہا جاتا ہے، برطانیہ اب بھی رواں ماہ کے آخر پر یورپی یونین سے نکل سکتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی یقینی نہیں بلکہ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ 'شاید‘ کا لفظ ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یورپی یونین کی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے اب اس بلاک کی رکن ریاستوں کو یہ سفارش کر دی ہے کہ وہ بریگزٹ کی موجودہ مدت میں ایک بار پھر توسیع پر راضی ہو جائیں تاکہ یوں برطانیہ کو 'نو ڈیل بریگزٹ‘ سے روکا جا سکے۔
اس سلسلے میں ڈونلڈ ٹسک نے ایک ٹویٹ میں اپنی اس سفارش کی بنیاد برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے منگل بائیس اکتوبر کی رات کیے گئے اس اعلان کو بنایا کہ بریگزٹ سے متعلق قانون سازی کا عمل اب سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔
برطانیہ میں اب بریگزٹ کے خلاف عوامی رائے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہےتصویر: Getty Images/AFP/I. Infantes
ساتھ ہی ڈونلڈ ٹسک نے یہ تجویز بھی دی کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کے رہنما اس بارے میں اپنا فیصلہ تحریری طور پر کریں۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پھر رکن ممالک کی سیاسی قیادت کو بریگزٹ سے متعلق اپنے فیصلے کے لیے اس بلاک کی کسی خصوصی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت نہیں ہو گی۔
وزیر اعظم بورس جانسن کے کل رات کیے جانے والے اعلان کی وجہ لندن میں پارلیمانی ایوان زیریں کی طرف سے اکثریتی رائے سے کیا جانے والا یہ فیصلہ بنا تھا کہ بریگزٹ کے لیے بہت تیز رفتار پارلیمانی فیصلہ سازی نہ کی جائے۔ دارالعوام کا یہ فیصلہ وزیر اعظم جانسن کے لیے ایک اور بہت بڑی سیاسی شکست تھا۔
جانسن کے متضاد پیغامات والے خطوط
برطانوی وزیر اعظم جانسن نے گزشتہ ہفتے یورپی یونین کے نام جو خطوط لکھے تھے، ان کی وجہ ہاؤس آف کامنز کا وہ اکثریتی فیصلہ تھا، جس پر عمل درآمد سے جانسن انکار نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے برسلز میں یورپی قیادت کے نام ایک خط میں یہ لکھا تھا کہ یونین بریگزٹ کی موجودہ مدت میں جنوری 2020ء کے آخر تک کے لیے توسیع کر دے۔ لیکن جانسن نے اس خط پر دستخط نہیں کیے تھے۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
ساتھ ہی انہوں نے ایک دوسرا خط بھی لکھا تھا، جس پر انہوں نے اپنے دستخط بھی کیے تھے اور موقف اختیار کیا تھا کہ یونین بریگزٹ کی موجودہ ڈیڈ لائن میں مزید کوئی توسیع نہ کرے۔ برسلز اس توسیع پر رضا مند ہو جائے گا یا نہیں، یہ فیصلہ یورپی سربراہان مملکت و حکومت کو اکتوبر میں ہی لیکن اتفاق رائے سے کرنا ہو گا۔
نئے عام انتخابات کا امکان
برطانوی سیاست بریگزٹ کے معاملے میں جس بھنور میں پھنسی ہوئی ہے، اس سے نکلنا بورس جانسن کے لیے کسی بہت بڑے فیصلے کے بغیر اب ممکن نظر نہیں آتا۔
اگر یورپی یونین بریگزٹ کی موجودہ ڈیڈ لائن میں تین ماہ کی توسیع پر آمادہ ہو گئی، تو جانسن کے لیے سیاسی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ یہی رہ جائے گا کہ وہ برطانیہ میں نئے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیں۔ یہی بات لندن میں بورس جانسن کے دفتر کی طرف سے بھی کہی جا چکی ہے۔
م م / ع ح (روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔