بالواسطہ مذاکرات: فلسطینی انتظامیہ کا باقاعدہ اعلان
9 مئی 2010امریکی ثالثی میں ہونے والی یہ بالواسطہ بات چیت فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ اٹھارہ ماہ میں ہونے والی پہلی مکالمت ہو گی۔
گو کہ فریقین کو ان بالواسطہ مذاکرات کے نتیجے میں کسی بڑی پیش رفت کی کوئی خاص امید نہیں تاہم امریکہ اس آغاز کو براہ راست مذاکرات کے لئے ایک اہم سیڑھی قرار دیتا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ سلامتی کی صورتحال سمیت اہم مسائل کا حل روبرو مذاکرات کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔
اتوار کے روز فلسطینی انتظامیہ کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار صائب ایرکات نے محمود عباس اور خصوصی امریکی مندوب برائے مشرق وسطیٰ جارج مچل کی ملاقات کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے بالواسطہ مذاکرات کے آغاز کا باقاعدہ اعلان کرتے ہیں۔ اس سے قبل مقامی وقت کے مطابق صبح گیارہ بجے جارج مچل اور محمود عباس کے درمیان ملاقات ہوئی۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے ان مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بات چیت کسی پیشگی شرط کے بغیر شروع کی جارہی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ امریکہ یا فلسطینیوں کے مطالبات کے سامنے سر خم نہیں کریں گے۔ نتن یاہو کے مطابق جب تک براہ راست مذاکرات شروع نہیں ہوں گے، تب تک کسی اہم اور پیچیدہ مسئلے کا حل سامنے آنا ممکن نہیں ہو گا۔ اپنی کابینہ پر ان مذاکرات کے حوالے سے اپنا نقطہء نظر واضح کرتے ہوئے نتن یاہو نے کہا: ’’بالواسطہ مذاکرات فوری طور پر براہ راست مذاکرات میں تبدیل ہونے چاہییں۔ جب تک ہم ایک کمرے میں ایک میز پر بیٹھ کر براہ راست بات چیت نہیں کریں گے۔ مسائل حل نہیں ہو سکتے۔‘‘
رواں برس مارچ کے بعد سے اب تک مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے کسی نئے اعلان کے سامنے نہ آنے کے بعد ان بستیوں کی ہمیشہ سے حمایت کرنے والے نتن یاہو کو داخلی طور پر تنقید کا سامنا بھی ہے۔
فلسطینی انتظامیہ کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں نئی یہودی آباد کاری کو مکمل طور پر بند کرے۔ فلسطینی انتظامیہ کے خیال میں یہ علاقے ممکنہ طور پر مستقبل کی خود مختار فلسطینی ریاست کا حصہ ہوں گے اور وہاں اسرائیل کو نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔
ہفتے کے روز تنظیم آزادیء فلسطین PLO کے اعلیٰ رہنماؤں نے ان بالواسطہ مذاکرات کے آغاز پر اتفاق ظاہر کیا تھا۔ رواں برس مارچ میں فلسطینی انتظامیہ نے ان بالواسطہ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی تھی تاہم اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم میں نئے یہودی مکانات کی تعمیر کے اعلان کے بعد صدر محمود عباس نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے ان مذاکرات کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بعد نتن یاہو کو یورپ اور امریکہ کی جانب سے شدید ترین تنقید اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
امریکی مندوب مچل اپنے ایک ہفتے سے بھی زیادہ طویل مگر کامیاب دورے کے بعد اتوار کے روز واپس وطن جا رہے ہیں تاہم اسرائیلی حکام کے مطابق وہ دس روز بعد دوبارہ اس خطے کا دورہ کریں گے۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: مقبول ملک