کئی دیگر ممالک کی طرح جرمنی میں بھی عام شہری بالکونیوں کو پودوں سے سجاتے ہیں۔ ایک جرمن ماحول دوست تنظیم کے مطابق سالانہ بنیادوں پر جرمنی میں باغیچوں اور بالکونیوں کے لیے تقریباﹰ ایک ارب یورو کے پودے خریدے جاتے ہیں۔
اشتہار
بظاہر یورپ میں اپنے گھروں کی بالکونیوں کو پودوں سے سجانے میں سبھی قومیں شریک ہیں۔ اس کی وجہ سے کسی حد تک ماحولیاتی نقصان بھی ہو رہا ہے کیونکہ اکثر سستے پودے مناسب انداز میں گھروں اور مکانوں کی بالکونیوں میں نہیں اگتے اور ان کے لیے استعمال کی جانے والی مصنوعی کھادیں ماحول کے لیے مضر ہو سکتی ہیں۔ سپر مارکیٹوں اور پودوں کی دوکانوں پر ایسے سستے پودے آسانی سے دستیاب ہیں۔
جرمن ماحول دوست تنظیم بی یو این ڈی (BUND) سے منسلک کیڑے مار ادویات کی ماہر کورینا ہوئلسل کے مطابق جرمنی میں سپر مارکیٹوں اور پودوں کی دوکانوں پر دستیاب پودے افریقی ملکوں ایتھوپیا، کینیا یا لاطینی امریکی ملک کوسٹاریکا سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے ان پودوں کو ناپائیدار قرار دیا کیونکہ یہ طویل عرصے تک زندہ نہیں رہتے۔
ہوئلسل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان ملکوں کی آب و ہوا ایسے پودوں کی افزائش کے لیے ساز گار ہے مگر ان پودوں کو وہاں سے دوسرے ممالک میں فروخت کے لیے برآمد کر دیا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہوائی جہازوں سے بھیجے جانے والے یہ پودے ماحول کو نقصان پہنچانے والی سبز مکانی گیسوں کے اخراج کا بالواسطہ باعث بھی بنتے ہیں۔
اشتہار
پودوں کی صحت کے لیے کیمیائی مادوں کا استعمال
برآمد کیے جانے والے پودوں کے محفوظ ہونے کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے والا ایک گروپ ایم پی ایس ہے، جو کم از کم پچاس ملکوں کے تین ہزار سے زائد پلانٹ پروڈیوسرز کے ساتھ مل کر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس گروپ کو پلانٹ پروڈیوسرز برآمد کیے جانے والے پودوں کی تفصیلات فراہم کرتے ہیں کہ کس پودے کے لیے کون کون سی کیڑے مار ادویات اور کھادیں کتنی استعمال کی گئی تھیں۔ اگر ان کیمیائی مرکبات کے استعمال میں غیر ضروری اضافہ کیا گیا ہو، تو پھر ایسے پودوں کے لیے ان کے محفوظ اور پائیدار ہونے کے سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کیے جاتے۔
خطرناک کیمیائی مادے ناقابل قبول
ان سرٹیفیکیٹس کا مقصد فرٹیلائزر سے حاصل ہونے والی مصنوعی توانائیوں کے غیر ضروری استعمال سے اجتناب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پلانٹ پروڈکشن کا دوسرے علاقوں سے تقابل بھی کیا جاتا ہے۔ ایم پی ایس کے جرمن دفتر کی کارین اشپَینگے مان کا کہنا ہے کہ خطرناک کیمیکلز والے مرکبات استعمال کرنے والے پلانٹ پروڈیوسرز کو بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے کیونکہ ایسے پودوں سے مالی فائدہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن ماحول کو نقصان بھی پہنچتا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ ایسے آرائشی پودوں کے محفوظ ہونے سے متعلق سرٹیفیکیٹس کے اجراء کے عمل کو ابھی مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
جرمن تنظیم بی یو این ڈی کی کورینا ہوئلسل کے مطابق درآمد کیے جانے والے پودوں کے لیے اس وقت دو طرح کے سرٹیفیکیٹ جاری کیے جانے کا نظام رائج ہے اور ان کے تحت پودوں کی افزائش کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ ہوئلسل اس نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے زیادہ سخت ماحولیاتی اصول متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔
بی یو این ڈی کی اس خاتون ماہر کے مطابق جو کیڑے مار ادویات یا کیمیائی مادے استعمال کیے گئے ہوں، ان کی مکمل تفصیلات کی وضاحت بہت ضروری ہے اور یہ تفصیلات ابھی فراہم نہیں کی جاتییں۔ اس لیے ماحولیاتی اصولوں کے مطابق ایسے پودوں کی برآمد کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔
شدید سردی میں پودے اور جانور زندہ کیسے رہتے ہیں؟
سرد علاقوں میں جیسے جیسے درجہ حرارت کم ہوتا جاتا ہے، وہاں پائے جانے والے پودوں اور جانوروں میں تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک نظرایسے جانوروں اور پودوں پر جوخوراک کی کمی کے باوجود اپنی زندگی کی جنگ نہیں ہارتے۔
تصویر: H.Schweiger/WILDLIFE/picture alliance
منجمد جنگل
شدید سردی میں درخت اپنی نشو ونما کا عمل روک دیتے ہیں اور توانائی محفوظ کرنے کے لیے غیر فعال ہو جاتے ہیں۔ جمی ہوئی برف کی وجہ سے زیر زمین پانی کی قلت ایک بڑا مسئلہ بن سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایسے میں صنوبر کے درخت اپنے پتوں کے گرد موم جیسی تہہ بنا لیتے ہیں تاکہ ان کا اندرونی پانی پتوں کے راستے ضائع نہ ہو۔
تصویر: Stephan Rech/imageBROKER/picture alliance
پتے گرا دینے والے درخت
برگ ریز کہلانے والے درخت سردی کا مقابلہ اپنے پتے گرا کر کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں ان کے تنوں میں موجود پانی ختم ہو جائے اور وہ موت کے منہ میں چلے جائیں۔ کچھ درخت شدید سردی میں خود کو منجمد ہونے سے بچانے کے لیے اپنے خلیات سے ہلکا ہلکا پانی خارج کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کچھ درخت سردیوں میں زیادہ شوگر پیدا کرتے ہیں تاکہ ان کی سردی کے خلاف مدافعت بڑھ جائے۔
تصویر: Andrew McLachlan/All Canada Photos/picture alliance
خوراک کا ذخیرہ
موسم سرما کے سخت حالات جانوروں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ نہ صرف خوراک کم ہو جاتی ہے بلکہ دن چھوٹے ہونے کی وجہ سے خوراک تلاش کرنے کا دورانیہ بھی محدود ہو جاتا ہے۔ کئی جانور موسم سرما سے پہلے ہی خوراک ذخیرہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شمالی امریکی چوہا نما جانور اپنے بل میں خشک خوراک جمع کرتا رہتا ہے، جو برف باری کے موسم میں کئی ماہ تک کے لیے کافی ہوتی ہے۔
تصویر: H.Schweiger/WILDLIFE/picture alliance
نئے ’کوٹ‘ پہننے والے جانور
کچھ جانور موسم سرما کا مقابلہ چربی کی اضافی تہہ اور بڑھتی ہوئی فر سے کرتے ہیں۔ یہ قطبی لومڑی تو سردیوں میں اپنی فر کا رنگ ہی سیاہ سے مکمل سفید میں تبدیل کر لیتی ہے۔ اس طرح وہ سردیوں میں اچھا شکار کر سکتی ہے۔ اس کی موٹی کھال بھی اسے شدید سردی سے محفوظ رکھتی ہے۔
موسم سرما کی طویل نیند
مارموت کی طرح کے ممالیہ جانور شدید موسم سرما کا مقابلہ طویل نیند سے کرتے ہیں۔ یہ ایک محفوظ بل یا جگہ کا انتخاب کرتے ہیں اور گہری نیند میں چلے جاتے ہیں۔ اس دوران ان کے دل کی دھڑکن، جسمانی درجہ حرارت اور سانس لینے کی رفتار بہت کم ہو جاتی ہے تاکہ توانائی محفوظ رہے۔ ریچھ بھی ایسی نیند سو سکتے ہیں لیکن ان کا جسمانی درجہ حرارت برقرار رہتا ہے کیوں کہ ان کی موٹی فر انہیں سردی سے بچا لیتی ہے۔
ریچھ کو تو اس کی موٹی فر گرم رکھتی ہے لیکن ایسے کیڑے مکوڑے اپنی جان کیسے بچاتے ہیں؟ ان کے جسموں کا زیادہ تر حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے، لہٰذا ان کے زندہ رہنے کے لیے منجمد ہونے سے بچنا لازمی ہوتا ہے۔ ایسے کچھ کیڑوں میں اینٹی فریز مادہ پیدا ہوتا ہے، جو آئس کرسٹلز کو ان کے خلیوں پر جمنے ہی نہیں دیتا۔ اس طرح کا ایک کیڑا ’فائر کلرڈ بیٹل‘ بھی ہے، جو منفی تیس سینٹی گریڈ میں بھی زندہ رہ سکتا ہے۔
تصویر: D. Vorbusch/McPHOTO/picture alliance
میٹابولک سوئچ
کچھوے موسم سرما تالاب کی تہہ میں گزار سکتے ہیں، چاہے تالاب کی سطح پر برف ہی کیوں نہ جمی ہوئی ہو۔ یہ کچھوے اپنا میٹابولک ریٹ نوے فیصد تک کم کر لیتے ہیں یعنی یہ تقریباﹰ بغیر خوراک کے ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ پانی سے باہر آکسیجن جمع کرنے کے لیے آتے ہیں لیکن سردیوں میں یہ اپنے پھیپھڑوں کو استعمال کیے بغیر اپنے جسم کی بیرونی سطح کے ذریعے پانی سے آکسیجن جذب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
تصویر: Bob Karp/ZUMAPRESS.com/picture alliance
7 تصاویر1 | 7
آرائشی پودوں کے لیے کم سے کم کیڑے مار ادویات کا استعمال زیادہ بہتر سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے پودوں کے لیے بائیو مادوں کا استعمال ضروری قرار دیا جانا چاہیے۔ کورینا ہوئلسل کے مطابق آرائشی پودوں کے لیے جینیاتی تبدیلیوں اور مصنوعی کھادوں کے استعمال کی ممانعت ہونا چاہیے۔