بالی میں دُنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا گرین اسکول
23 جولائی 2010درختوں میں گھرے اِس اسکول کو دیکھنے پر پہلی نظر میں یہی گمان ہوتا ہے کہ گویا یہ کسی جنگل میں ہپیوں کا کوئی کیمپ ہو۔ دراصل اِس اسکول کا مقصد بچوں کی اس انداز میں تربیت کرنا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی دُنیا کو بدل کر رکھ دیں۔
آج کل یہاں زیرِ تعلیم بچوں کی تعداد 130 ہے، جو کیمبرج IGCSE اسٹینڈرڈ کے مطابق الجبرا، فزکس، فلسفے اور انگریزی گرامر پڑھتے ہیں۔ اگرچہ ماحولیات کے تحفظ کا مضمون الگ سے بھی پڑھایا جاتا ہے لیکن دیگر مضامین کی تعلیم بھی اِس انداز میں دی جاتی ہے کہ اُن میں ماحولیات کا پہلو بھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔
ایک آسٹریلوی جوڑے کی تیرہ سالہ بیٹی گریٹا بھی اِس اسکول میں پڑھتی ہے۔ اُس کی ماں رینے شِپ کا کہنا ہے کہ اِس اسکول کی تعلیم نے اُس کی بچی کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔ اُس نے بتایا کہ پہلے گریٹا کھانے کی میز پر بہت کم بولتی تھی لیکن چند مہینے پہلے اِس اسکول میں داخل ہونے کے بعد سے اب وہ افلاطون یا پھر تحفظ ماحول جیسے موضوعات پر بلا تکان بولتی ہے۔ اُس کے والد ایشلے نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’ہماری بیٹی کو گویا زبان مل گئی ہے اور اُس نے جان لیا ہے کہ دوسرے لوگ اُس کے خیالات کو اہمیت دیتے ہیں۔‘‘
یہاں پڑھانے والے اساتذہ میں سے ایک کا تعلق جرمنی سے ہے۔ یہ ہیں، ستیہ بیرگر، جن کا سات سالہ بیٹا میل وِن بھی اِس اسکول میں زیر تعلیم ہے۔ وہ بتاتی ہیں:’’اب بچے سماجی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، زبان اور ثقافت کے فرق کو بھی زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور اُن کے دل میں دوسروں کے لئے عزت اور احترام کے جذبات بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔‘‘
آٹھ ہیکٹر رقبے پر پھیلے اِس اسکول کے کمرے بانسوں سے بنائے گئے ہیں۔ اِس کا اہم ترین حصہ ایک دو منزلہ ہال ہے، جو اسکول کے احاطے کا کام بھی دیتا ہے اور جس میں بعد ازاں اسکول کی لائبریری بھی قائم کی جائے گی۔ کلاسیں کمروں کے اندر بھی ہوتی ہیں اور باہر بھی۔ ہر کلاس اپنے باغیچے کی خود ذمہ دار ہے اور وہاں سے حاصل ہونے والی غذائی اَشیاء اسکول کی کینٹین کو فراہم کرتی ہے۔
اسکول کے ڈائریکٹر بَین میکروری کے مطابق آج کل کی اسکول کی تعلیم کو اکیس ویں صدی کے حالات اور ضروریات سے ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں، ’ہم ایسی نسل پروان چڑھانا چاہتے ہیں، جو اپنی تخلیقی صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے آنے والے کل کے مسائل حل کرے‘۔
یہ اسکول بالی میں برسوں تک چاندی کے زیورات تیار کرنے کے کاروبار سے وابستہ ایک امریکی جوڑے جَون اور سِنتھیا ہارڈی نے دو سال پہلے قائم کیا تھا، جس نے بعد میں اپنی بانسوں سے تیار کی گئی فیکٹری فروخت کر دی تھی۔
اِس اسکول کی تعلیم سستی ہرگز نہیں ہے۔ والدین کو ایک بچے کے لئے دَس ہزار ڈالر سالانہ دینا پڑتے ہیں۔ وظائف صرف مقامی طلبہ کے لئے مختص ہیں۔ ہارڈی فیملی اُمید کر رہی ہے کہ اگلے برس اُن کے اسکول میں 150 تا 170 بچے تعلیم حاصل کر رہے ہوں گے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت:کشور مصطفٰی