بالی ووڈ اسٹائل ڈانس بارز میں کام کا شوق، کہیں اور لے گیا
8 اگست 2019
شیلا کو جب کال موصول ہوئی تو اس نے قطعاً نہیں سوچا اور فوری طور پر ہاں کر دی۔ اسے بیوٹی پارلر سے ملنے والی تنخواہ سے تین گنا زیادہ پیسوں کی پیشکش ہوئی تھی کہ وہ کینیا کے ایک نائٹ کلب میں ثقافتی رقاصہ کے طور پر کام کرے۔
اشتہار
نیپال کے چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی تئیس سالہ بیوٹیشن شیلا نے کینیا کا نام بھی نہ سن رکھا تھا۔ ایک مقامی بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی اس لڑکی کو نہ تو ڈانس کرنے کا کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی اس نے کبھی اس ڈانس کلب کے مالک سے ملاقات کی تھی۔ اسے باقاعدہ طور پر ملازمت کا کوئی کانٹریکٹ بھی نہیں ملا تھا۔
غربت کی زندگی بسر کرنے والی اس لڑکی کو جب چھ سو ڈالر ماہانہ کی پیشکش ہوئی تو وہ تمام تر خطرات مول لینے کو تیار ہو گئی۔ اس نے کینیا کا سفر اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ کینیا جا کر بالی ووڈ اسٹائل کلبوں میں ڈانس کرتے ہوئے نہ صرف انجوائے کر سکے گی بلکہ اپنے غریب گھروالوں کی کفالت بھی کر سکے گی۔
جب چھاپہ پڑا
اپریل میں ہی کینیا کی پولیس نے بندرگاہی شہر ممباسا کے ایک نائٹ کلب پر چھاپہ مارا اور وہاں غیر قانونی طور پر کام کرنے والی گیارہ نیپالی لڑکیوں کو بازیاب کرایا۔ شیلا بھی انہی میں سے ایک تھی۔ تاہم اب اس کے خیالات واضح طور پر کچھ مختلف ہو چکے ہیں۔ اس نے بتایا، ''یہ وہ جگہ نہیں تھی، جس کے بارے میں مجھے بتایا گیا تھا‘‘۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو میں شیلا نے کہا کہ اسے تو عیش و عشرت کے سہانے خواب دکھائے گئے تھے۔ لیکن اس مشرقی افریقی ملک میں آکر تو اسے رات نو بجے تا صبح چار بجے تک ناچنا پڑتا تھا اور وہاں موجود جو لوگ اسے کچھ پیسے بطور ٹپ دیتے تھے، وہی اس کی کمائی ہوتی تھی۔
بالغوں کے کلبوں میں رقص
انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف فعال کارکنوں اور پولیس کے مطابق پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں کینیا میں واقع بالغوں کے انٹرٹنیمنٹ کلبوں میں کام کرنے کے لیے اس مشرقی افریقی ریاست کا رخ کر رہی ہیں۔ حالیہ عرصے میں ان خواتین کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے تاہم اس بارے میں مصدقہ اور حتمی اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔
کینیا کی پولیس کے مطابق ایسے نائٹ کلبوں پر متعدد ایسے چھاپے مارے گئے، جہاں جنوبی ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں غیرقانونی طور پر کام رہی تھیں۔ کینیا کی حکومت ان لڑکیوں کو ان کے آبائی وطن روانہ کر رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس کارروبار میں انسانوں کے اسمگلروں کے منظم گروہ شریک ہیں۔
پولیس کے مطابق ممباسا کے نائٹ کلب کے مالک آصف امیرعلی علی بھائی کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی جا چکی ہے۔ تاہم ملزم نے انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ کینیڈا اور برطانیہ کی دوہری شہریت رکھنے والے آصف کا موقف ہے کہ یہ لڑکیاں اپنی رضا مندی سے ان کے کلب میں کام کرتی تھیں اور ان کا جنسی استحصال نہیں کیا جاتا تھا۔ پولیس کے مطابق آصف ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے لیکن ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا رہی ہے۔
ع ب/ ع ح / تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن
پاکستان میں ’عزت کی نگاہ‘ کے متلاشی
ستائیس سالہ وسیم اکرم دن کو تو موبائل فونز کی ایک دکان پر کام کرتا ہے لیکن اکثر راتوں کو وہ پارٹی ڈانسر ’رانی‘ کا روپ دھار لیتا ہے۔ پاکستان میں آج بھی ہیجڑوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Muhammed Muheisen
رات کا رقاص
سورج ڈھلتے ہی وسیم ایک ہیجڑے کا روپ دھار لیتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر ڈانس پارٹیاں رات ہی کو ہوتی ہیں۔ اندازوں کے مطابق پاکستان میں آٹھ لاکھ خواجہ سرا ہیں۔ عمومی طور پر ایسے افراد کو ایک ہی کردار میں پسند کیا جاتا ہے اور وہ ہے شادی بیاہ یا نجی پارٹیوں میں ڈانسر کا کردار۔
تصویر: picture-alliance/AP/Muhammed Muheisen
دن میں دوسری دنیا
پاکستان میں خواتین اور مردوں کے کردار واضح ہیں جبکہ مخنث افراد کو اکثر و بیشتر نامناسب رویے کا سامنا رہتا ہے۔ وسیم دن میں ایک دکان پر کام کرتا ہے اور اس نے بھی اپنی دوہری شخصیت کو اپنے جاننے والوں چھپایا ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Muheisen
وسیم سے ’رانی‘
وسیم خواجہ سرا تو نہیں ہے لیکن اسے خواتین کے کپڑے پہننے کا شوق ہے۔ وسیم کا کہنا ہے، ’’میں کوئی ہیجڑا نہیں ہوں۔ میں بس ایک ایسا مرد ہوں، جسے رقص کرنا پسند ہے۔ مجھے بہتر زندگی گزارنے کے لیے پیسے کی ضرورت ہے اور ایک عورت کا روپ دھارتے ہوئے میں زیادہ کما سکتا ہوں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Muheisen
تنہائی میں اپنا خاندان
ایسے کئی افراد معاشرے یا اپنے خاندان کے رد عمل کے ڈر سے اپنا اپنا گاؤں چھوڑ کر شہروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ خواجہ سرا اپنے جیسے لوگوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ تینتالیس سالہ بختاور کا کہنا ہے کہ اُسے تنہا باہر جانے سے ڈر لگتا ہے لیکن اپنے جیسے ساتھیوں میں حفاظت اور احترام کا احساس ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Muhammed Muheisen
ہیجڑوں کے خواب
پاکستان میں معاشرتی سطح پر ہیجڑوں کو ایک طرف تو مشکلات کا سامنا رہتا ہے لیکن دوسری طرف ان کے قانونی حقوق میں بہتری بھی پیدا ہوئی ہے۔ سن 2011 ميں خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ حاصل کرنے، ووٹ ڈالنے، اپنا ذاتی اکاؤنٹ کھولنے، سرکاری سطح پر کام کرنے اور پاسپورٹ وغیرہ بنوانے کے حقوق حاصل ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Muhammed Muheisen
مساوی حقوق کے لیے مہم
سپریم کورٹ کی طرف سے حقوق ملنے کے بعد 2013ء میں پہلی مرتبہ خواجہ سراؤں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ بندیا رانی (تصویر میں دائیں طرف) نے بھی اپنی انتخابی مہم چلائی۔ بندیا رانی پارلیمان میں تو نہ جا سکی لیکن وہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے ہمراہ خواجہ سراؤں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے ضرور کوشاں رہتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Shakil Adil
ہمیشہ کی دوہری زندگی
چوالیس سالہ امجد کے برعکس کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو اپنی دوہری زندگی یا دوہری شخصیت کے بارے میں فخر سے بتاتے ہیں:’’مجھ میں بس ایک ہی کمی ہے کہ میں عورت کی طرح کسی بچے کو جنم نہیں دے سکتا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP/Muhammed Muheisen
شاندار ماضی
ان کا ذکر ہندوؤں کی قدیم کتابوں میں بھی ملتا ہے جبکہ سولہویں اور سترہویں صدی میں مغل دورِ حکومت کے دوران ہیجڑے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور یہ زیادہ تر ذاتی ملازموں یا محافظوں کے طور پر شاہی درباروں سے وابستہ ہوتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Muhammed Muheisen
امتیازی سلوک میں کمی
سماجی ماہرہن کے مطابق اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیازی سلوک میں کمی آ رہی ہے لیکن اس کی رفتار بہت کم ہے۔