انڈونیشیا میں بالی کے جزیرے پر واقع کوہ آگونگ کا آتش فشاں پھٹنے کے عین قریب ہے۔ کسی بھی بڑے حادثے سے بچنے کے لیے متاثرہ علاقے میں رہائش پذیر ہزاروں باشندوں کے گھر خالی کروا لیے گئے ہیں۔
اشتہار
ماہرین برکانیات کے مطابق انڈونیشیا کے بالی جزیرے پر واقع کوہ آکونگ کا آتش فشاں گزشتہ کئی دنوں سے مسلسل خطرے کی علامت بنا ہوا ہے اور اب وہ پھٹنے کے عین قریب ہے۔ جمعے کے روز حکومتی ماہر برکانیات گیڈے ساؤنتکا کا مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’گزشتہ تین دنوں سے پہاڑ کے دہانے میں دراڑیں پڑتی جا رہی ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہیں کہ یہ آتش فشاں پھٹنے کے بالکل قریب ہے۔‘‘
تاہم ساؤنتکا کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے باوجود یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ یہ کس وقت پھٹ سکتا ہے۔ بائیس ستمبر کے بعد اس آتش فشاں سے ملنے والے ارتعاشی سِگنلز میں اضافہ ہو گیا تھا اور تب ہی حکومت نے اس حوالے سے تمام اداروں اور مقامی آبادی کو الرٹ کر دیا تھا۔
انڈونیشیا کے مقامی میڈیا کے مطابق کوہ آگونگ کے مضافات میں رہنے والے ایک لاکھ پینتیس ہزار افراد کو سرکاری عمارتوں، اسپورٹ ہالز اور حکومتی کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
آتش فشانی پہاڑوں سے متعلق علم رکھنے والے ایک دوسرے ماہر کاسبانی کا جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پہاڑ کے دہانے پر دراڑیں لاوے کے اندرونی دباؤ کی وجہ سے پڑی ہیں، جو باہر نکلنا چاہتا ہے۔ کوہ آگونگ سے نکلنے والے دھواں اس پہاڑ کی چھوٹی سے پانچ سو میٹر بلندی تک پہنچ رہا ہے۔ کاسبانی کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ پہاڑ کے اندر موجود لاوے کے دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ’’ہمارے پاس موجود ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ دہانے میں ایک نئی دراڑ پیدا ہو چکی ہے۔‘‘
کوہ آگونگ تین ہزار اکتیس میٹر بلند ہے اور آخری مرتبہ یہ انیس سو تریسٹھ میں پھٹا تھا اور اس کے نتیجے میں بارہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ انڈونیشیا میں ایک سو تیس متحرک آتش فشاں موجود ہیں۔
زمین پر قدرتی آفات کے مناظر خلا سے کیسے نظر آتے ہیں؟
سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر میں ہماری زمین کیسی معلوم ہوتی ہے، آئیے دیکھتے ہیں سیٹلائٹ سے موصول کردہ قدرتی آفات کی کچھ انتہائی متاثر کن تصویریں۔
تصویر: NASA
جب عفریت جاگ اٹھتا ہے
آتش فشاں بھلے کتنے عرصہ ہی خاموش رہیں، لیکن جب وہ جاگتے ہیں تو تباہی پھیلا دیتے ہیں۔ روس کے کیُوریئل جزائر میں واقع Sarychev نامی آتش فشاں سن 2009 میں پھٹ پڑا تھا۔ اس وقت انٹرنیشنل سپیس اسٹیشن نے اس کی چند تصاویر اتار لی تھیں۔ اس طرح کے امیجز قدرتی مظاہر کو سمجھنے اور تحقیق میں انتہائی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
تصویر: NASA
بولیویا کی جھیل کا پانی اڑتا ہوا
یورپی سپیس ایجنسی کا سیٹلائٹ Proba-V زمین پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ امیجز (بائیں سے دائیں) اپریل 2014، جولائی 2015 اور جنوری 2016 میں لیے گئے تھے۔ ان تصاویر میں بولیویا کی مشہور Poopo جھیل میں پانی کی مقدار کم ہونے کے بارے میں درست اندازہ ہوتا ہے۔ اس جھیل کے پانی کا بخارات بن کر اڑ جانے کی وجہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: ESA/Belspo
آگ سے مت کھیلو!
ہر برس دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں بھڑکنے والی جنگلاتی آگ سے نہ صرف بڑے پیمانے پر تباہی پھیلتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں حیاتیاتی تنوع بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس آتشزدگی کی بڑی وجہ انسانوں کی غلطی کو قرار دیا جاتا ہے۔ ستمبر 2015 میں انڈونیشیا میں بورنیو اور سماٹرا کے جزائر میں بھڑکنے والی آگ نے بھی شدید تباہی مچائی۔ اس تصویر میں آگ کا دھواں فضا میں اٹھتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: NASA/J. Schmaltz
جب جرمن بچے بات نہ سنیں تو؟
جرمنی میں بچوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنا کھانا اچھے طریقے سے نہیں کھائیں گے تو نہ رکنے والی بارش شروع ہو جائے گی۔ سن 2013 میں جرمنی میں خوب بارش ہوئی، اتنی بارش ہوئی کہ وسطی یورپ کے اہم دریاؤں میں طغیانی آ گئی اور نتیجہ تھا سیلاب۔ اس تصویر میں ایلبے دریا میں سیلاب کا منظر دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: NASA/J. Allen
سمندری طوفان جوان ہوتے ہوئے
طاقت ور سمندری طوفان کے نتیجے میں چلنے والی تیز ہوائیں ناقابل تلافی نقصان کی حامل ہو سکتی ہیں۔ ایسے سمندری طوفانوں کی نگرانی کے لیے سٹیلایٹ امیجز انتہائی اہم قرار دیے جاتے ہیں۔ ان سے طوفان کے راستے میں آنے والے علاقوں کے موسم پر پیدا ہونے والے اثرات مثلاً بارش یا جھکڑوں کی رفتار وغیرہ کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ نومبر 2015ء میں میکسیکو کے قریب آنے والے ایک خطرناک طوفان کی تصویر۔
تصویر: NASA/J. Schmaltz
برف پگھلتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟
سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہی بھی ہوتی ہے جبکہ ان کے تجزیات سے مستقبل کا لائحہ عمل بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ سائنسدان انہی امیجز سے برف پگھلنے کے عمل کی بھی نگرانی کرتے ہیں۔ انہی تصاویر سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر کے بڑے بڑے برفانی تودے کس طرح پگھل رہے ہیں۔ یہ سیٹلائٹ تصویر ارجنٹائن کے Upsala گلیشیئر کی ہے۔
تصویر: NASA
گردوغبار کا طوفان
گردوغبار کے طوفان عمومی طور پر دوردراز کے صحرائی علاقوں میں آتے ہیں۔ تاہم ستمبر 2015 میں ایک سیٹلائٹ نے مشرق وسطیٰ کے رہائشی علاقوں میں آنے والے ایک طوفان کا کامیاب تجزیہ کیا۔ یہ انکشافات اور ان پر تحقیق پیش گوئی کے عمل کا بہتر بنانے میں مزید موثر ثابت ہوں گے۔
تصویر: NASA/J. Schmaltz
’ننگا پہاڑ‘
امریکی خلائی ادارے ناسا نے کیلی فورنیا میں شاستا نامی پہاڑ بر برف کی مقدار کم ہونے کے باعث اُسے ’ننگا‘ قرار دے دیا ہے۔ یہ پہاڑ علاقائی سطح پر پانی کے حصول کا ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ اس پہاڑ پر برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ کوئی شک نہیں اگر پانی نہیں ہو گا تو خشک سالی ہو گی۔