انڈونیشیا کے معروف سیاحتی مقام بالی میں واقع کوہ آگونگ میں آتش فشانی کے باعث خطرے کی سطح مزید بڑھا دی گئی ہے۔ ادھر سینکڑوں پروازیں منسوخ ہونے کے باعث ہزاروں مسافر بالی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر محصور ہو گئے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے انڈونیشیائی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ بالی کے کوہ آگونگ میں آتش فشانی کا امکان بڑھتا جا رہا ہے۔ اسی لیے خطرے کی سطح مزید بڑھا کر چار کر دی گئی ہے۔ اس پہاڑ سے کثیف دھوئیں اور راکھ نے فضا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اسی باعث ویک اینڈ سے بالی کا ہوائی اڈہ بھی بند ہے۔
حکام نے بتایا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے 445 پروازیں متاثر ہو چکی ہیں جبکہ 59 ہزار مسافر بالی میں محصور ہو چکے ہیں۔ مقامی حکام نے بتایا ہے کہ راکھ اور دھوئیں کے باعث آئندہ دنوں میں مزید پروازیں بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران دوسری مرتبہ کوہ آگونگ میں سرگرمی دیکھی گئی ہے۔
حکام نے خبردار کیا ہے کہ اس آتش فشاں سے بڑے پیمانے پر لاوا ابل سکتا ہے، اس لیے شہریوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ پیر کے دن ملک کی ہنگامی آفات سے نمٹنے کی ایجنسی BNPB نے خبردار کیا ہے کہ اس پہاڑ میں دھماکوں کی وجہ سے قریبی علاقے متاثر ہو سکتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ کوہ آگونگ کے قریبی علاقوں سے ہزاروں شہریوں کو محفوظ علاقوں میں منتقل ہونے کی ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں۔
مقامی میڈیا نے BNPB کے حوالے سے خبردار کیا ہے کہ اتوار اور پیر کے درمیانی رات کے دوران مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوہ آگونگ میں بڑے پیمانے پر دھماکے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس ایجنسی سے وابستہ اہلکار سوتپو نے روئٹرز سے گفتگو میں کہا کہ ابھی تک کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے تاہم احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کم ازکم چالیس ہزار افراد کو محفوظ علاقوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
کوہ آگونگ آخری مرتبہ سن 1963 میں پھٹا تھا، جس کے باعث تقریبا ایک ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس تباہی کی وجہ سے متعدد گاؤں بھی نیست ونابود ہو گئے تھے۔ حکام کے مطابق موجودہ خطرات اتنے بڑے نہیں ہیں لیکن متعلقہ اداروں کو کسی بھی ہنگامی حالت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
زمین پر قدرتی آفات کے مناظر خلا سے کیسے نظر آتے ہیں؟
سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر میں ہماری زمین کیسی معلوم ہوتی ہے، آئیے دیکھتے ہیں سیٹلائٹ سے موصول کردہ قدرتی آفات کی کچھ انتہائی متاثر کن تصویریں۔
تصویر: NASA
جب عفریت جاگ اٹھتا ہے
آتش فشاں بھلے کتنے عرصہ ہی خاموش رہیں، لیکن جب وہ جاگتے ہیں تو تباہی پھیلا دیتے ہیں۔ روس کے کیُوریئل جزائر میں واقع Sarychev نامی آتش فشاں سن 2009 میں پھٹ پڑا تھا۔ اس وقت انٹرنیشنل سپیس اسٹیشن نے اس کی چند تصاویر اتار لی تھیں۔ اس طرح کے امیجز قدرتی مظاہر کو سمجھنے اور تحقیق میں انتہائی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
تصویر: NASA
بولیویا کی جھیل کا پانی اڑتا ہوا
یورپی سپیس ایجنسی کا سیٹلائٹ Proba-V زمین پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ امیجز (بائیں سے دائیں) اپریل 2014، جولائی 2015 اور جنوری 2016 میں لیے گئے تھے۔ ان تصاویر میں بولیویا کی مشہور Poopo جھیل میں پانی کی مقدار کم ہونے کے بارے میں درست اندازہ ہوتا ہے۔ اس جھیل کے پانی کا بخارات بن کر اڑ جانے کی وجہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: ESA/Belspo
آگ سے مت کھیلو!
ہر برس دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں بھڑکنے والی جنگلاتی آگ سے نہ صرف بڑے پیمانے پر تباہی پھیلتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں حیاتیاتی تنوع بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس آتشزدگی کی بڑی وجہ انسانوں کی غلطی کو قرار دیا جاتا ہے۔ ستمبر 2015 میں انڈونیشیا میں بورنیو اور سماٹرا کے جزائر میں بھڑکنے والی آگ نے بھی شدید تباہی مچائی۔ اس تصویر میں آگ کا دھواں فضا میں اٹھتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: NASA/J. Schmaltz
جب جرمن بچے بات نہ سنیں تو؟
جرمنی میں بچوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنا کھانا اچھے طریقے سے نہیں کھائیں گے تو نہ رکنے والی بارش شروع ہو جائے گی۔ سن 2013 میں جرمنی میں خوب بارش ہوئی، اتنی بارش ہوئی کہ وسطی یورپ کے اہم دریاؤں میں طغیانی آ گئی اور نتیجہ تھا سیلاب۔ اس تصویر میں ایلبے دریا میں سیلاب کا منظر دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: NASA/J. Allen
سمندری طوفان جوان ہوتے ہوئے
طاقت ور سمندری طوفان کے نتیجے میں چلنے والی تیز ہوائیں ناقابل تلافی نقصان کی حامل ہو سکتی ہیں۔ ایسے سمندری طوفانوں کی نگرانی کے لیے سٹیلایٹ امیجز انتہائی اہم قرار دیے جاتے ہیں۔ ان سے طوفان کے راستے میں آنے والے علاقوں کے موسم پر پیدا ہونے والے اثرات مثلاً بارش یا جھکڑوں کی رفتار وغیرہ کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ نومبر 2015ء میں میکسیکو کے قریب آنے والے ایک خطرناک طوفان کی تصویر۔
تصویر: NASA/J. Schmaltz
برف پگھلتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟
سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہی بھی ہوتی ہے جبکہ ان کے تجزیات سے مستقبل کا لائحہ عمل بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ سائنسدان انہی امیجز سے برف پگھلنے کے عمل کی بھی نگرانی کرتے ہیں۔ انہی تصاویر سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر کے بڑے بڑے برفانی تودے کس طرح پگھل رہے ہیں۔ یہ سیٹلائٹ تصویر ارجنٹائن کے Upsala گلیشیئر کی ہے۔
تصویر: NASA
گردوغبار کا طوفان
گردوغبار کے طوفان عمومی طور پر دوردراز کے صحرائی علاقوں میں آتے ہیں۔ تاہم ستمبر 2015 میں ایک سیٹلائٹ نے مشرق وسطیٰ کے رہائشی علاقوں میں آنے والے ایک طوفان کا کامیاب تجزیہ کیا۔ یہ انکشافات اور ان پر تحقیق پیش گوئی کے عمل کا بہتر بنانے میں مزید موثر ثابت ہوں گے۔
تصویر: NASA/J. Schmaltz
’ننگا پہاڑ‘
امریکی خلائی ادارے ناسا نے کیلی فورنیا میں شاستا نامی پہاڑ بر برف کی مقدار کم ہونے کے باعث اُسے ’ننگا‘ قرار دے دیا ہے۔ یہ پہاڑ علاقائی سطح پر پانی کے حصول کا ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ اس پہاڑ پر برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ کوئی شک نہیں اگر پانی نہیں ہو گا تو خشک سالی ہو گی۔