جرمن وفاقی ادارے برائے مہاجرین و ترک وطن کی سربراہ کو اُن کے منصب سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب حکومتی جماعتوں میں مہاجرین کے معاملے پر اختلافات عروج پر ہیں۔
اشتہار
جرمن وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے جمعے کے روز خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا تھا کہ ملکی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی جانب سے بامف کی سربراہ یوٹا کورٹ کو اُن کے منصب سے برطرفی کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔
وفاقی جرمن ادارے برائے مہاجرت اور ترک وطن یا بامف کو کئی ہفتوں سے ایسے الزامات کا سامنا ہے کہ اس کی بریمن شاخ میں سن 2013 اور سن 2016 کے درمیان قریب بارہ سو مہاجرین کو غالباﹰ رشوت لے کر جرمنی میں رہنے کے بلا جواز اجازت نامے جاری کیے گئے۔
زیہوفر کی اتحادی اور باویرین قانون ساز آندریا لنڈ ہاؤس کے بقول،’’ کورٹ نے اچھا کام کیا ہے لیکن ایک نئی شروعات اور ادارے کی ساکھ کی بحالی کے لیے اُن کی جگہ کسی اور کی تعیناتی ضروری ہو گئی تھی۔‘‘
دوسری جانب سیاسی جماعت ’فری ڈیموکریٹس‘ سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمنٹ لنڈا ٹوئٹے برگ کا کہنا ہے کہ کورٹ کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔
کورٹ کو برطرف کیے جانے کا اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے مہاجرین کے معاملے پر اپنا موقف سخت تر کرتے ہوئے اس کا دائرہ کار بھی وسیع کر دیا ہے۔ زیہوفر کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ ایسے مہاجرین کو جرمنی کی سرحد ہی سے واپس بھیج دیا جائے جنہوں نے کسی اور یورپی یونین ملک میں پہلے سے بطور پناہ گزین اندراج کرا رکھا ہے۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ جرمن وزیر داخلہ درست شناختی دستاویزات نہ رکھنے والے اور ایک بار ڈی پورٹ ہو کر دوبارہ جرمنی میں داخلے کے خواہشمند تارکین وطن کو ملک میں آنے کی اجازت نہیں دینا چاہتے۔
تاہم جرمن چانسلر میرکل اس اقدام کی مخالف ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اس طرح نہ صرف جرمنی کے پڑوسی ممالک پر بوجھ زیادہ ہو گا بلکہ یورپی یونین کی ساکھ بھی متاثر ہو گی۔
جمعے کے روز ہورسٹ زیہوفر نے جرمن اخبار’ زوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا،’’ جرمن چانسلر کے سن 2015 میں لاکھوں مہاجرین کو جرمنی میں داخلے کی اجازت دینے کے فیصلے نے یورپ میں اختلاف کو جنم دیا تھا۔‘‘
دوسری جانب ایسا عندیہ دیا گیا ہے کہ چانسلر میرکل رواں ماہ کی اٹھائیس اور انتیس تاریخ کو مہاجرین کے موضوع پر ہونے والی ایک کانفرنس میں غیر قانونی مہاجرت کے یورپی یونین سطح پر حل کے اپنے موقف پر قائم رہیں گی۔
ص ح/ ڈی پی اے
’مہاجرین کے روپ میں مسلمان حملہ آور یورپ آ رہے ہیں‘
تیسری مرتبہ ہنگری کے وزیراعظم منتخب ہونے والے وکٹور اوربان یورپی ممالک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف اٹھنے والی نمائندہ آواز رہے ہیں۔ تارکین وطن کو ’زہر‘ اور مہاجرت کو ’حملہ‘ قرار دینے والے اوربان تنقید سے کبھی نہیں ڈرے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’مہاجرین کے روپ میں مسلم حملہ آور‘
اوربان نے جرمن روزنامے ’دی بلڈ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’میں ان لوگوں کو مسلم تارکین وطن نہیں بلکہ مسلمان حملہ آور سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ آئے یہ مسلمان مہاجر ہمیں متوازی معاشروں کی طرف لے کر جائیں گے کیوں کہ مسیحی اور مسلم سماج کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔‘‘ اوربان کا کہنا تھا کہ متنوع ثقافت محض ایک واہمہ ہے۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
’مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں‘
جرمن اخبار ’دی بلڈ‘ کے اس سوال پر کہ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ جرمنی تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرے لیکن ہنگری چند کو بھی نہیں، اوربان نے کچھ یوں رد عمل ظاہر کیا،’’ مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں۔ مہاجرت سے ہنگری کی خود مختاری اور ثقافتی اقدار کو خطرہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’مہاجرت زہر ہے‘
یہ پہلی بار نہیں جب ہنگری کے اس رہنما نے مہاجرت پر تنقید کی ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھی اپنے ایک بیان میں اوربان نے کہا تھا کہ ہنگری کو اپنے مستقبل یا معیشت یا ملکی آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی ایک بھی مہاجر کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا،’’ہمارے لیے مہاجرت حل نہیں بلکہ مسئلہ ہے، دوا نہیں بلکہ زہر ہے۔ ہمیں تارکین وطن کی ضرورت نہیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/P. Gorondi
’دہشت گردی اور ہم جنس پرستی کی درآمد‘
وکٹور اوربان نے سن 2016 کے اوائل میں بلڈ اخبار کو بتایا تھا،’’اگر آپ مشرق وسطیٰ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ شدہ تارکین وطن کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنے ملک میں دہشت گردی، سامیت دشمنی، جرائم اور ہم جنس پرستی کو در آمد کر رہے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘
اوربان نے یورپی یونین کے رکن ریاستوں میں مہاجرین کی تقسیم کے کوٹے کے منصوبے پر بھی متعدد بار تنقید کی ہے۔ سن 2015 میں یورپی یونین سے متعلق خبریں اور تجزیے شائع کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Bozon
متوازی معاشرے
پولینڈ اور آسٹریا جیسی ریاستیں بھی مہاجرین کے حوالے سے ہنگری جیسے ہی تحفظات رکھتی ہیں اور یوں اوربان کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ سن 2015 میں اسپین کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں اوربان کا کہنا تھا،’’ہم کس قسم کا یورپ چاہتے ہیں۔ متوازی معاشرے؟ کیا ہم چاہتے ہیں مسلمان اور مسیحی افراد ساتھ ساتھ رہیں؟‘‘