’بامف کے نئے سربراہ، زیہوفر کے قریبی باویرین اتحادی زومر‘
17 جون 2018
جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور تارکین وطن یا بی اے ایم ایف کا نیا سربراہ باویریا کے ایک سخت گیر اہلکار کو بنایا جا رہا ہے۔ اس ادارے کی سابقہ سربراہ کو پناہ کی درخواستوں کے ایک اسکینڈل کے بعد برطرف کر دیا گیا تھا۔
اشتہار
جرمن میڈیا نے سترہ جون بروز اتوار بتایا کہ ’بامف‘ کی سربراہی وفاقی جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے ایک قریبی اتحادی اور جنوبی صوبے باویریا ہی سے تعلق رکھنے والے ہانس ایکہارڈ زومر کو تفویض کی جا رہی ہے۔ جرمن جریدے فوکس آن لائن اور جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے یہ اطلاع دیتے ہوئے اپنے ذرائع کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ تاہم برلن میں وفاقی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کسی قسم کی قیاس آرائی نہیں کی جائے گی۔
ہانس ایکہارڈ زومر کو جرمن حکومتی حلقے پناہ گزینوں کے حوالے سے بہت سخت گیر موقف کی حامل شخصیت سمجھتے ہیں۔ وہ اب تک صوبے باویریا میں غیر ملکیوں اور پناہ گزینوں سے متعلقہ علاقائی محکمے کے نگران ہیں۔
فوکس آن لائن کے مطابق زومر مہاجرین اور پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کی زیادہ سخت اسکریننگ اور مسترد شدہ تارکین وطن کی جرمنی سے ملک بدری کے عمل کو تیز تر بنا دینے کے حامی ہیں۔
'بی اے ایم ایف‘ جو ملکی وزارت داخلہ کے تحت پناہ کی درخواستوں پر کارروائی کرنے کا ذمہ دار ہے، گزشتہ کچھ عرصے سے ’بریمن ریفیوجی اسکینڈل‘ کی زد میں ہے۔ اس وفاقی جرمن دفتر برائے مہاجرت اور تارکین وطن کو کئی ہفتوں سے ایسے الزامات کا سامنا ہے کہ اس کی شمالی صوبے بریمن میں موجود شاخ میں سن 2013 اور سن 2016 کے درمیانی عرصے میں قریب بارہ سو مہاجرین کو غالباﹰ رشوت لے کر جرمنی میں رہنے کے بلاجواز اجازت نامے جاری کیے گئے تھے۔
تازہ ترین تحقیقات سے تاہم یہ پتہ چلا ہے کہ ایسی درخواستوں کی تعداد جن پر نامناسب کارروائی کی گئی تھی، ابتدائی اعداد و شمار کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے جمعے کے روز ’بامف‘ کی سربراہ یوٹا کورٹ کو اُن کے منصب سے برطرف کر دیا تھا۔ وہ اس عہدے پر سن 2017 سے فائز تھیں۔
مہاجرین کے معاملے پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور ملکی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے مابین اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق جرمن وزیر داخلہ درست شناختی دستاویزات نہ رکھنے والے اور ایک بارملک بدر کیے جانے کے بعد دوبارہ جرمنی میں داخلے کے خواہش مند تارکین وطن کو ملک میں آنے کی اجازت نہیں دینا چاہتے۔
تاہم چانسلر میرکل اس سوچ کی مخالف ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اس طرح نہ صرف جرمنی کے پڑوسی ممالک پر بوجھ زیادہ ہو گا بلکہ یورپی یونین کی اور یونین میں جرمنی کی ساکھ بھی متاثر ہو گی۔
ص ح/م م/ ڈی پی اے
جرمنی میں تارکینِ وطن کی رہائش گاہیں
جرمنی میں پناہ گزینوں سے متعلق دفتر کا اندازہ تھا کہ 2015ء کے دوران تقریباً تین لاکھ مہاجرین جرمنی کا رخ کریں گے لیکن اب اس تعداد کو ساڑھے چار لاکھ کر دیا گیا ہے۔ سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو ٹھہرایا کہاں جاتا ہے؟
تصویر: Picture-Alliance/dpa/P. Kneffel
عارضی رہائش گاہیں
جرمن شہر ٹریئر میں قائم کی جانے والی عارضی رہائش گاہوں میں تقریباً ساڑھے آٹھ سو افراد کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ جب کوئی بھی مہاجر جرمنی آتا ہے تو اسے ابتدائی تین ماہ اسی طرح کی جگہوں پر رکھا جاتا ہے۔ بعد ازاں انہیں کسی دوسرے شہر یا کسی مضافاتی علاقے میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں پر انتظامات مختلف ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Tittel
ہنگامی انتظامات
سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث عارضی رہائش گاہوں میں جگہ ختم ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے شہر کے ٹاؤن ہال یا دیگر سرکاری عمارتوں میں ہنگامی انتظامات کیے گئے ہیں۔ یہ تصویر شہر ’ہام‘ میں قائم کی جانے والی ایک ایسی ہی ہنگامی رہائش گاہ کی ہے، جہاں ایک وقت میں پانچ سو مہاجرین قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
اسکول بھی رہائش گاہیں
مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو رہائش فراہم کرنے میں اکثر شہروں کی انتظامیہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر شہر آخن کو جولائی کے وسط میں تین سو مہاجرین کے قیام کا انتظام کرنا تھا اور اس موقع پر ان افراد کو صرف اسکول میں ہی پناہ دی جا سکتی تھی۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/R. Roeger
عارضی خیمے
اس دوران جرمنی میں بہت سے مقامات پر مہاجرین کے لیے خیمے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ موسم گرما میں تو ان عارضی خیموں کو استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم سردیوں میں ان مہاجرین کو کسی عمارت میں منتقل کرنا پڑے گا۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/J. Wolf
سب سے بڑی خیمہ بستی
مہاجرین کے لیے سب سے بڑی خیمہ بستی مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں قائم کی گئی ہے۔ یہاں رہنے کے لیے صبر کی ضرورت ہے۔ بیت الخلاء کے لیے طویل قطاریں لگتی ہیں اور کھانے کے لیے بھی انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آج کل یہاں پر پندرہ ممالک کے ایک ہزار افراد موجود ہیں۔ اس خیمہ بستی میں کُل گیارہ سو افراد قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/A. Burgi
کنٹینرز بطور رہائش گاہ
زیادہ سے زیادہ پناہ گزینوں کا انتظام کرنے کے لیے بہت سے جرمن علاقوں میں کنٹینرز میں بھی رہائش گاہیں قائم کر دی گئی ہیں۔ شہر ٹریئر میں 2014ء سے ایسی رہائش گاہیں قائم ہیں۔ آج کل یہاں ایک ہزار سے زائد مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/H. Tittel
مہاجرین کی پناہ گاہوں پر حملے
صوبے باڈن ورٹمبرگ میں مہاجرین کے لیے زیر تعمیر ایک عمارت کو 18 جولائی کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران جرمنی کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں روزانہ کی بنیادوں پر مہاجرین کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنانے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ غیر ملکیوں سے اس نفرت کے خلاف شہریوں کی جانب سے مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/SDMG/Dettenmeyer
سیاسی قائدین
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ اور نائب جرمن چانسلر زیگمار گابریئل نے اکتیس جولائی کو صوبہ میکلنبرگ پومیرانیہ میں قائم ایک مہاجر بستی کا دورہ کیا۔ یہاں تین سو افراد رہائش پذیر ہیں۔ اس موقع پر گابریئل نے کہا کہ مہاجرین کو پناہ دینے کا تعلق صرف پیسے سے نہیں بلکہ یہ عزت و وقار کا معاملہ بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Wüstneck
نئی عمارات کی تعمیر
پناہ گزینوں کو مناسب سہولیات فراہم کرنے لیے مختلف علاقوں میں نئی رہائش گاہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ یہ صوبہ باویریا میں تعمیر کی جانے والی ایک ایسی ہی عمارت کی تصویر ہے، جس میں ساٹھ افراد کی گنجائش ہے۔ جنوری 2016ء میں تعمیراتی سلسلہ مکمل ہو جائے گا۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/D. Karmann
انتظار انتظار
مہاجرین کے لیے جب تک نئی باقاعدہ رہائش گاہیں تعمیر نہیں ہو جاتیں، عارضی رہائش گاہوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہے گا، جیسے میونخ میں قائم کی جانے والی یہ خیمہ بستی ہے، جسے ایک ہی رات میں تعمیر کیا گیا۔ اس میں کئی درجن خیمے ہیں، جن میں تقریباً تین سو بستر لگائے گئے ہیں۔