بان کی مون کا دورہء پاکستان
13 اگست 2013منگل کو اپنی اہلیہ کے ہمراہ پاکستان کے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچنے کے بعد بان کی مون نے نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(نَسٹ) میں ’سینٹر آف انٹرنیشنل پِیس اینڈ سٹیبیلٹی‘ کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز بھی موجود تھے۔ بان کی مون نے اپنے خطاب میں دنیا میں قیام امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج نے اقوام متحدہ کے امن دستوں کا حصہ بن کر دنیا کے مختلف ممالک میں بے مثال کام کیا اور اپنی جانوں تک کی قربانیاں دیں۔
اپنے خطاب میں بان کی مون نے کہا کہ اقوام متحدہ کے امن مشن کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے اور اپنے مینڈیٹ کے نفاذ اور فوجیوں کے تحفظ کے لیے عسکری اور سیاسی سطح پرکوششوں کے علاوہ قانون کی حکمرانی، اداروں کی تعمیر نو اور جدید ٹیکنالوجی بھی متعارف کرائی جارہی ہے۔
اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں وہ ایک بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ بغیر پائلٹ کے جاسوس طیاروں یعنی ڈرونز کا استعمال بین الاقوامی قوانین کے تحت کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کہ ’’جیسا کہ میں اکثر اور مسلسل کہتا رہا ہوں کہ مسلح ڈرون کا استعمال دوسرے ہتھیاروں کی طرح بین الاقوامی قوانین کے تحت ہونا چاہیے۔ جن میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین بھی شامل ہیں۔ یہ اقوامِ متحدہ کی بہت ہی واضح پوزیشن ہے۔‘‘
اس موقع پر اپنے خطاب میں سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا میں امن کا خواہاں ہے اور اسی مقصد کے لیے اقوام متحدہ کے امن دستوں میں دس فیصد پاکستانی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مختلف شعبہ جات میں اقوام متحدہ کے تعاون کا بھی شکر گزار ہے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ ، ’’پاکستان کی ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عزم، اس کی امن و سلامتی کے فروغ کی پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے۔ بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات نے حکومت اور عوام کے عزم کو اور پختہ کیا ہے کہ دہشت گردی کی لعنت سے ملک کو بچایا جائے اور ہم مکمل فتح تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔‘‘
اس سے قبل بان کی مون اور سرتاج عزیز کے درمیان ملاقات کے دوران اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی منصوبوں اور بھارت و پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر کشیدہ صورتِ حال پر غور ہوا۔ اس ملاقات میں وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی اور پاکستان کے سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی بھی شریک ہوئے۔
بان کی مون ایک ایسے وقت پر پاکستان کا دورہ کررہے ہیں جب سرحدی کشیدگی کے سبب پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک مرتبہ پھر کشیدہ ہوچکے ہیں۔ ماضی قریب میں بان کی مون نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی اور پاکستان اور بھارت پر کشمیر کے دیرینہ تنازع کو حل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر فریقین انہیں ثالث بنانے پر اتفاق کریں تو وہ اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان آمد سے قبل ایک انٹرویو میں سیکرٹری جنرل بان کی مون کا کہنا تھا کہ وہ کشمیرکے تنازعے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسردہ ہیں تاہم انہوں نے اس تنازع کے حل کے لیے فریقین کی جانب سے مذاکراتی عمل کو حوصلہ افزا قرار دیا۔
پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دونوں ممالک کی معاونت سے متعلق سوال پر بان کی مون نے کہا تھا کہ اس سلسلے میں وہ بطور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل دستیاب ہیں، اگر فریقین سمجھتے ہیں کہ یہ مفید ثابت ہو سکتا ہے تو میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔
بان کی مون کے دورے کے حوالے سے پاکستان کے دفترِ خارجہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اپنے دورے کے دوران وزیر اعظم نواز شریف اور قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق سمیت دیگر اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
دفتر خارجہ کے مطابق اپنے اس دورے کے دوران بان کی مون پاکستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارتی کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ میں بھی شرکت کریں گے اور اسلام آباد میں چودہ اگست کو یومِ آزادی کے موقع پر ہونے والی تقریب کے مہمانِ خصوصی ہوں گے۔