وفاقی جرمن صوبے باویریا کے انتخابات میں جرمن چانسلر میرکل کی اتحادی اور حکمران سیاسی جماعت سی ایس یو کو اپنی تاریخ کے بدترین نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ سات دہائیوں میں تیسری مرتبہ سی ایس یو کو شراکت اقتدار کرنا پڑے گا۔
اشتہار
جرمنی کے وفاقی انتخابات میں اے ایف ڈی نے چانسلر میرکل کے قدامت پسند اتحاد سی ڈی یو اور سی ایس یو کے ووٹ بینک کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ صوبہ باویریا کے انتخابات میں بھی چانسلر میرکل کی اتحادی جماعت کرسچن سوشل یونین نے گزشتہ سات دہائیوں کی بدترین کارکردگی دکھائی۔ سن 1950 کے بعد ایسا تیسری مرتبہ ہو رہا ہے کہ سی ایس یو کو حکومت بنانے کے لیے دیگر جماعتوں کا سہارا لینا پڑے گا۔
اتوار کو منعقد کیے گئے ان انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کی کارکردگی بھی انتہائی مایوس کن رہی جب کہ مہاجرین اور مسلم مخالف عوامیت پسند جماعت اے ایف ڈی اور گرین پارٹی کو ماضی کے مقابلے میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔
ایگزٹ پول نتائج
سی ایس یو کو 35.5 فیصد ووٹ ملے جو گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 12.2 فیصد کم ہیں
ایس پی ڈی کو 10 فیصد ووٹ ملے جو گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 10.2 فیصد کم ہیں
فری ووٹرز نے ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں ڈھائی فیصد زائد ووٹ حاصل کیے، ایف ڈبلیو کو 11.5 فیصد ووٹ ملے
گرین پارٹی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھی اور 18.5 فیصد ووٹ حاصل کیے جو ماضی کی نسبت قریب دس فیصد زائد ہیں۔
اے ایف ڈی پہلی مرتبہ اس میدان میں اتری اور 11 فیصد ووٹ حاصل کر کے چوتھی بڑی سیاسی طاقت ثابت ہوئی
چانسلر میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کو قدامت پسند اتحاد کہا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت میں یہ اتحاد سوشل ڈیموکریٹس (ایس پی ڈی) کے ساتھ مخلوط حکومت بنائے ہوئے ہے۔ سی ایس یو دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت متبادل برائے جرمنی ( اے ایف ڈی) کی کامیابی کو چانسلر میرکل کی مہاجر دوست پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔
باویریا میں انتخابات سے قبل ہی سی ایس یو نے صوبائی سطح پر مہاجرین کے حوالے سے انتہائی سخت پالیسی اختیار کر لی تھی۔ پارٹی کے سربراہ اور وفاقی جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے وفاقی سطح پر بھی کھل کر چانسلر میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسیوں کی مخالفت کر کے وفاقی حکومت کو مشکل میں ڈالے رکھا تھا۔
تاہم ان اقدامات کے باوجود سی ایس یو باویریا میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ سی ایس یو اور ایس پی ڈی نے انتخابی نتائج کا بغور جائزہ لینے اور ناکامی کی وجوہات کا سنجیدگی سے تدارک کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ش ح / ع ب / خبر رساں ادارے
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔