وفاقی جرمن ریاست باویریا میں ایک منصوبے کے تحت صوبے میں مقیم مہاجرین کا معاشرتی انضمام یقینی بنانے کے لیے انہیں ملازمتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ صوبائی حکام کے مطابق یہ منصوبہ کامیابی سے جاری ہے۔
اشتہار
جرمن صوبے باویریا میں مہاجرین سے متعلق سخت رویہ رکھنے والی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی اتحادی جماعت سی ایس یو کی حکومت ہے۔ اس صوبے میں مقیم مہاجرین کو ملازمتیں فراہم کر کے ان کا معاشرتی انضمام یقینی بنانے کے لیے ایک خصوصی منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔
دو برس بعد اب حکام کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ کامیابی سے جاری ہے اور اب تک اڑتالیس ہزار سے زائد مہاجرین کو باقاعدہ روزگار اور ملازمتیں فراہم کر کے انہیں مقامی معاشرے میں ضم کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ جرمن نیوز ایجنسی کے این اے کے مطابق اس منصوبے کے بارے میں یہ اعداد و شمار صوبائی چانسلری کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں۔
’روزگار اور تربیت کی مدد سے سماجی انضمام‘ نامی یہ منصوبہ سن 2015 میں شروع کیا گیا تھا۔ مہاجرین کے بارے میں سخت موقف رکھنے والی سیاسی جماعت سی ایس یو ہی کے تین وزرا نے یہ منصوبہ متعارف کرایا تھا۔ ان وزیروں میں صوبائی وزیرِ معیشت ایلزے آئیگنر، خاتون وزیر روزگار امیلیا میولر اور سی ایس یو ہی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر ثقافت لُڈوگ سپینلے شامل تھے۔
صوبائی وزیر ایلزے آئیگنر نے بتایا کہ مجموعی طور پر اس منصوبے کے تحت گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ اٹھارہ ہزار مہاجرین کو فنی تربیت، انٹرن شپ اور ملازمتیں فراہم کی گئیں۔ صوبائی حکومت نے سن 2019 تک ساٹھ ہزار پناہ گزینوں کو ملکی روزگار کی منڈی میں پہنچانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ موجودہ منصوبے کی کامیابی کے باعث حکام کا کہنا ہے کہ ساٹھ ہزار مہاجرین کو روزگار کی فراہمی کے ذریعے سماجی انضمام کا یہ ہدف ممکنہ طور پر طے شدہ وقت سے پہلے ہی حاصل کر لیا جائے گا۔
ملازمتوں سے متعلق صوبائی وزیر امیلیا میولر نے بھی یہ منصوبہ کامیابی سے جاری رکھے جانے کی امید کا اظہار کیا ہے۔ میولر کا کہنا تھا کہ ان کی وزارت نے صرف اس برس کے دوران مہاجرین کو ملازمتیں فراہم کر کے ان کا سماجی انضمام یقینی بنانے کے لیے دس ملین یورو مختص کر رکھے ہیں۔
صوبائی حکام کے مطابق اس منصوبے کی کامیابی میں مہاجرین کو فنی تربیت کے پروگرام مہیا کرنے کے لیے بھرتی کیے گئے چھبیس اور روزگار کے حصول میں معاونت کرنے والے چھبیس اہلکاروں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کس یورپی ملک نے غیر قانونی طور پر مقیم کتنے پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور کتنے پاکستانی شہری اس ملک سے چلے گئے؟ اس بارے میں یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار:
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
برطانیہ
یورپی ملک برطانیہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قریب چالیس ہزار پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر مقیم تھے جنہیں انتظامی یا عدالتی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ستائیس ہزار سے زائد پاکستانی برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
یونان
یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر واقع ملک یونان سے پچھلے پانچ برسوں میں تینتالیس ہزار پاکستانی شہری ایسے تھے جنہیں یونان میں قیام کی قانونی اجازت نہیں تھی اور انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں سولہ ہزار سات سو پاکستانی یونان چھوڑ کر گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Lafabregue
فرانس
فرانس نے جنوری سن 2012 اور دسمبر 2016 کے درمیان غیر قانونی طور پر وہاں موجود ساڑھے گیارہ ہزار پاکستانیوں کو فرانس سے چلے جانے کا حکم دیا۔ اس عرصے میں تاہم 2650 پاکستانی شہری فرانس چھوڑ کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Widak
سپین
اسی دورانیے میں اسپین میں حکام یا عدالتوں نے جن پاکستانی باشندوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ان کی تعداد پونے آٹھ ہزار بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں ساڑھے چھ سو پاکستانی اسپین سے واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک چلے گئے۔
تصویر: dapd
بیلجیئم
بیلجیئم میں حکام نے ان پانچ برسوں میں قریب ساڑھے پانچ ہزار ایسے پاکستانیوں کو اپنی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا، جنہیں بلیجیم میں قانونی طور پر قیام کی اجازت نہیں تھی۔ اس عرصے میں ملک سے چلے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 765 رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Dunand
جرمنی
سن 2012 میں جرمنی میں محض پونے چار سو پاکستانی ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر ملک جرمنی سے جانا تھا تاہم سن 2016 میں ایسے افراد کی تعداد چوبیس سو تھی اور ان پانچ برسوں میں مجموعی تعداد پانچ ہزار کے قریب بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس دورانیے میں 1050 پاکستانی باشندے عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت جرمنی سے چلے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
آسٹریا
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آسٹریا سے مجموعی طور پر 3220 پاکستانی باشندوں کو ملکی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا اور اس دوران 535 پاکستانی آسٹریا چھوڑ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ہنگری
ہنگری نے بھی سن 2012 سے لے کر 2016 کے اختتام تک قریب تین ہزار پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر مقیم قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا، تاہم اس دوران ہنگری کی حدود سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد قریب پندرہ سو رہی۔
تصویر: Jodi Hilton
اٹلی
انہی پانچ برسوں کے دوران اطالوی حکام نے بھی ڈھائی ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر وہاں مقیم پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ یورو سٹیٹ کے مطابق اس عرصے میں اٹلی سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد محض چار سو افراد پر مبنی رہی۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
یورپ بھر میں مجموعی صورت حال
مجموعی طور پر اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور انہیں عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ مجموعی طور پر 54 ہزار سات سو سے زائد پاکستانی یورپی یونین کے رکن ممالک سے چلے گئے۔