باویریا میں مہاجرین کے متنازعہ ’عبوری مراکز‘ کا قیام
1 اگست 2018
جرمن ریاست باویریا مہاجرین کے لیے متنازعہ مراکز کا قیام آج بدھ کے روز سے عمل میں لا رہی ہے۔ تارکین وطن کے حوالے سے جرمن حکومت حالیہ کچھ عرصے میں بہت دباؤ اور تنقید کا شکار رہی ہے۔
اشتہار
تارکین وطن کے لیے اِن مراکز کا قیام جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے اُس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت وہ پناہ کی درخواستوں پر عمل در آمد تیز کرتے ہوئے جرمنی میں مہاجرین کی تعداد کو کم سے کم کرنا چاہتے ہیں۔
سرحد ہی سے مہاجرین کو واپس لوٹا دینے کے زیہوفر کے منصوبے نے رواں برس جون میں حکومت کو سیاسی بحران سے دو چار کر دیا تھا اور اسے میرکل حکومت کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا تھا۔
ہورسٹ زیہوفر کا تعلق چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی باویریا صوبے میں سسٹر پارٹی کرسچین سوشل یونین سے ہے۔ ہوسٹ زیہوفر تارکین وطن سے متعلق سخت موقف رکھتے ہیں، تاہم چانسلر میرکل زور دیتی آئی ہیں کہ اس معاملے میں جرمنی کو انفرادی سطح پر اقدامات کی بجائے ایک مشترکہ یورپی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
میرکل اور ملکی وزیر داخلہ کے مابین گیارہ گھنٹے طویل مذاکرات کے بعد یہ طے پایا تھا کہ تارکین وطن کے حوالے سے ملکی سرحدوں پر سختی لائی جائے گی اور وہاں ’ٹرانزٹ مراکز‘ قائم کیے جائیں گے۔ اس طرح تارکین وطن کو آسٹریا کی سرحد پر ہی روک دیا جائے گا۔ تاہم اس فیصلے پر جرمنی کی مخلوط حکومت میں شامل جماعت ایس پی ڈی نے حکومت سے نکل جانے کی دھمکی دی تھی۔
تاہم بعد میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین، اس جماعت کی باویریا صوبے میں سسٹر پارٹی کرسچین سوشل یونین اور وسیع تر حکومتی اتحاد میں شامل جرمنی کی دوسری سب سے بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان مہاجرین کے حوالے سے ایک مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق ہو گیا تھا۔
جرمنی کی دیگر ریاستوں نے یا تو ایسے عبوری مراکز کے قیام کو مؤخر کیا ہے اور یا پھر سرے سے اس پالیسی میں حصہ دار بننے سے انکار کر دیا ہے۔ لیکن باویریا میں منصب اقتدار پر فائز قدامت پسند جماعت سی ایس یو اپنے پلان پر عمل درآمد کر رہی ہے۔
باویرین حکومت کے اس اقدام پر چرچ گروپوں، مہاجرین کی حمایت کرنے والی تنظیموں اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح ملک میں تارکین وطن کے گیٹو فروغ پائیں گے اور وہ جرمن معاشرے میں انضمام نہیں کر سکیں گے۔
ص ح / ع ت / ڈی پی اے
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔