1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

باچا خان اگر میران شاہ میں ہوتے؟

26 نومبر 2020

کسی قبیلے کی تہذیب اور شائستگی کا اندازہ لگانا ہو تو دیکھ لیا کرو کہ وہاں خواتین کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ خواتین کی راہ میں رکاوٹ بننا سراسر بدسلوکی ہے۔

DW Urdu Blogger Farnood Alam
تصویر: Privat

خان عبدالغفار خان حضرت باچا خان پچاس سے زائد خدائی خدمت گاروں کے ساتھ کانگریس کے پہلے جلسے میں شرکت کے لیے پشاور سے روانہ ہوئے۔ یہ ٹھیک وہی دن تھا جس دن تحریکِ آزادی کے سپاہی بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی۔ پھانسی کی یہ خبر لاہور ریلوے سٹیشن پر اخبار کا ضمیمہ بیچنے والا ایک جوان یہاں وہاں دوڑتا ہوا دے رہا تھا۔باچا خان کے کہنے پر ایک سُرخ پوش جھٹ پٹ ریل سے اترا، ضمیمہ خریدا اور بھاگم بھاگ واپس بوگی میں آگیا۔ باچا خان کی افسردہ نگاہیں اخبار کی شہہ سرخی میں اٹک کر رہ گئیں۔ گہری خاموشی کو توڑتی ہوئی ایک آواز آئی، بابا بھگت سنگھ کون تھا؟ اخبار لپیٹ کر وہ بھگت سنگھ، اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل کی آشفتہ سری کی کہانی سنانے لگا اور ریل کراچی کے لیے روانہ ہو گئی۔

سرخ پوشوں کا قافلہ کراچی کینٹ سٹیشن پر اترا تو فضائیں ڈھول کی تھاپ سے گونج رہی تھیں اور سرمستی میں جھومنے والے جوانوں کا اتڑ دھول اڑا رہا تھا۔ جھومتے اور گاتے ہوئے یہ قافلہ نشتر پارک کے دروازے میں داخل ہوا تو مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی سٹیج پر کھڑے ہو گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی کانگریس کی پوری قیادت کھڑی ہو گئی, جب تک باچا خان سٹیج تک پہنچ نہیں گئے، حضرات سٹیج پر کھڑے رہے اور تالیاں پیٹتے رہے۔

اس جلسہ گاہ میں باچا خان کی نظر ایک منظر پر ٹھہر گئی۔ قطار میں موجود خواتین کے حفاظتی دستوں نے پنڈال کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ خواتین کا ہی ایک منظم دستہ سرخ پوشوں کو اپنے حصار میں لے کر دھیرے دھیرے سٹیج کی طرف بڑھ رہا ہے۔ باچا خان نے نوٹ کیا کہ خدائی خدمت گار بھی یہ منظر دیکھ کر کچھ حیران حیران سے ہیں۔ لوہا گرم دیکھ کر انہوں نے ہلکی سی ایک ضرب لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ خدائی خدمت گاروں کو جلسے کے اختتام پر نشتر پارک میں ایک طرف کہیں جمع ہونے کو کہا۔ دور دراز سے آئے ہوئے قافلے جمع ہوئے تو باچا خان سٹیج سے اتر کر ان کے پاس گئے۔

باچا خان نے کہا، یہاں الگ سے کسی اکٹھ کا ارادہ تو نہیں تھا مگر دل کی ایک بات کہنے کے لیے تم لوگوں کو زحمت دی۔ کیا تم لوگوں نے آج یہاں جلسے میں خواتین کا شاندار عملی کردار دیکھا؟ آواز بلند ہوئی، جی بابا!!! کیا یہ دیکھ کر کچھ دیر کو خیال آیا کہ ہمارے ہی خطے میں موجود کچھ علاقوں کی خواتین کہاں پہنچ گئی ہیں اور ہماری خواتین کہاں رہ گئی ہیں۔ مجمع خاموش!!! ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خواتین کے کردار کو محدود کرکے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ کسی قبیلے کی تہذیب اور شائستگی کا اندازہ لگانا ہو تو دیکھ لیا کرو کہ وہاں خواتین کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ خواتین کی راہ میں رکاوٹ بننا سراسر بدسلوکی ہے۔ مجھ سے وعدہ کرو کہ آج کے بعد اپنی بچیوں کی تعلیم کا بھی برابر بندوبست کرو گے۔ آواز آئی، بابا ضرور کریں گے!! وعدہ کرو کہ ان کے سیاسی اور معاشرتی کردار میں رکاوٹ نہیں بنو گے۔ یک آواز ہو کر سب نے کہا، نہیں بنیں گے بابا نہیں بنیں گے!!

کراچی کی یہی تقریر تھی جس کے بعد سُرخ پوشوں میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے ایک صحت مند بحث نے جنم لیا۔ برصغیر پاک و ہند میں خواتین کی تعلیم کے لیے حساسیت کی اس سطح کو  کبھی آغاخان سوئم سلطان محمد شاہ نے چھوا تھا۔ مبالغہ لگے گا، مگر تاریخ کی گواہی یہی ہے کہ آغا نہ ہوتے تو علی گڑھ یونیورسٹی کا منصوبہ بھی خوابوں کے جزدان میں کہیں لپٹا ہوا رکھا ہوتا۔علی گڑھ کا تو ابھی خیال بھی نہیں آیا تھا کہ آغا نے ہندوستان میں لڑکیوں کے لیے ایک کالج کی بنیاد رکھ دی تھی۔ علی گڑھ کے لیے آواز اٹھی تو آغا اٹھ کے چل پڑے۔ سب سے پہلے اپنے خزانے کا منہ کھولا پھر دوسروں سے اصرار کیا۔ بنیاد پڑی تو پہلی دیوار آغا نے اپنے ہاتھوں سے اٹھائی۔ اٹھا تو دی، مگر اس بات کا انہیں عمر بھر رنج رہا کہ سر سید احمد خان خواتین کے تعلیم کے حق میں نہیں ہیں۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ سر سید نے ارد گرد کے ماحول کے پیش نظر خواتین کے تعلیم سے پہلو تہی کی تھی۔ ٹھیک ہے ایسا ہی ہو گا، مگر اسی ماحول میں آغا نے اپنے پیروکاروں سے کہا تھا، اگر تمہاری ایک بیٹی ایک بیٹا ہو، تمہاری جیب صرف ایک کو تعلیم دینے کی اجازت دے تو تم بیٹی کو تعلیم دینا۔ اس سے کہیں زیادہ گھٹن والے ماحول میں باچا خان نے سرخ پوشوں سے وعدہ لیا تو یوں کہا، سب سے پہلے میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے گھر کی خواتین کے لیے تعلیم کا بندوبست کروں گا اور ان کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنوں گا۔

گزشتہ دنوں جب اسفندیار ولی خان نے خواتین کے اجتماع کے لیے آواز دی تو بہت شدت سے کہا، سب سے پہلے میرے گھر سے خواتین نکلیں گی۔ دراصل یہ انہوں نے اسی روایت کے تسلسل میں کہا جو باچا خان چھوڑ کر گئے تھے۔ یہ وہی روایت ہے جو آگے چل کر خیبر پختونخوا کے قبائل سے اٹھنے والی انسانی حقوق کی تحریک میں نظر آئی۔ خواتین نے آگے بڑھ کر فیصلہ ساز حلقوں میں شمولیت اختیار کی۔ پشاور، کراچی، لاہور اور کوئٹہ کی بھاگ دوڑ میں حصہ ڈالا۔ کڑا وقت آیا تو برابر کا نقصان بھی اٹھایا۔

سائیں کمال خان شیرانی کے ژوب سے ارمان لونی نام کا میر جیسا ایک پراگندہ حال پروفیسر بھی نکلا تھا۔ روشن آنکھوں والا وہی جوان، جو خان عبدالصمد خان کا پیروکار تھا۔ شعر کہتا تھا، کہانی سناتا تھا اور ادب پڑھاتا تھا۔ گھٹن زدہ فضاؤں نے یہ منظر بارہا دیکھا کہ پروفیسر زمین پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کی بہن وڑانگہ لونی سٹیج سے خطاب کررہی ہے۔ اس منظر میں بہار کے کتنے رنگ ہیں، یہ وہی جانتا ہے، جس نے خزاں کی رُت صرف شاعری میں نہ دیکھی ہو۔

 اس سب کے باوجود یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ پشتون قبائل میں خواتین کے لیے جو چیلنج اب پیدا کیے گئے ہیں وہ باچا خان کے زمانے میں نہیں تھے۔ باچا خان کے وطن میں خاتون کا کردار محدود ضرور تھا، مگر اس سے نفرت نہیں کی جاتی تھی۔ عورت اول و آخر ایک جنسی حوالہ نہیں تھی۔ شادی بیاہ کے مخلوط اجتماعات ہوتے تھے، مرد و زن مصافحہ کرتے تھے، تقریبات میں خواتین مٹکے بجاتی تھیں اور گیت گاتی تھیں۔ پردے کا ایک ثقافتی تصور موجود تھا مگر عورت کہیں غائب نہیں تھی۔ پچھلے چار عشروں میں نصاب نے کچھ ایسی باتیں تعلیم کر دی ہیں کہ ثقافت پیشوائیت کو جوابدہ ہو گئی ہے۔ حجرہ ویران ہو گیا، اتنڑ حرام ہو گیا، ٹپے ناجائز ہو گئے، بانسری خون آلود گئی، مصافحے ممنوع ہو گئے، خوشی میں ہنسنا جرم ہو گیا۔ جب یہ سب ہوتا تھا تو خواتین محفوظ ہوتی تھیں۔ یہ سب ختم کیا گیا تو گھٹن کچھ ایسی بڑھی کہ گڑیا سے کھیلنے والی کم سن بچیاں بھی غیر محفوظ ہو گئیں۔ 

یہ چار عشرے بیچ میں حائل نہ ہوتے تو میران شاہ میں خواتین کا ایک دستہ بھی سفید پرچم لہرا رہا ہوتا۔ ایسا ممکن نہیں ہوا، مگر کیا یہ کم تھا کہ ثنا اعجاز نے میران شاہ کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ خطاب ہی نہیں کیا، ایک بات بھی کہی جسے سمجھ لیا جائے تو قوم کا بیڑا پار ہے۔ خطاب کے لیے بلاتے ہوئے ایک ٹپہ ثنا اعجاز کے نام کیا گیا۔ جس کا مفہوم کچھ یوں ہے، جوانوں کے ہاتھ اگر کم پڑ گئے تو اے پیارے وطن! تیری بیٹیاں آگے بڑھ کر فتح کا جھنڈا تھام لیں گی۔  

بروقت گرفت کرتے ہوئے ثنا اعجاز نے کہا "میرے لیے جو ٹپہ کہا گیا میں اس کے لیے شکر گزار ہوں، مگر سوال یہ ہے کہ خواتین مردوں کے ہاتھ کم پڑنے کا انتظار کیوں کریں؟ ہم سب ایک قوم ہیں، سب نے اپنے حصے کا چراغ جالانا ہے۔ یہ پدر سری روایت کے خلاف مزاحمت کی اگلی منزل تھی جس کی جانب ثنا اعجاز نے اشارہ کیا۔

یہ اشارہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ مرد جاتی اپنےکوائف میں اب یہ بات نمایاں طور پر لکھنے لگی ہے کہ میں نے بیٹی کو تعلیم کا حق دیا ہے، میں نے آزادی دی ہے، میں نے اجازت دی ہے، میں نے موقع دیا ہے وغیرہ۔ میں معاون نہیں ہوں، میں تو ایک اچھا حاکم ہوں۔ دنیا یہاں سے وہاں چلی جائے میری حاکمیت کہیں نہ جائے۔ کسی دن تو خاتون نے پلٹ کر پوچھنا ہی تھا کہ یہ جو آزادی خود آپ کو میسر ہے، وہ کسی نے آپ کو دی ہے یا فطرت کے دیباچے میں پہلے سے کہیں لکھی ہوئی تھی۔ جھنڈا تھامنے کے لیے آپ سے این ا و سی لینا کیوں ضروری ہے؟ یہ کیوں ضروری ہے کہ زندگی کی ڈگی میں ہم سٹیپنی کی طرح پڑی رہیں، آپ کی ہوا نکلے تو ہم سہارا بنیں؟

آپ نے آزادی نہیں دینی، آپ نے تو دو قدم پیچھے ہٹنا ہے۔آپ نے احسان نہیں جتلانا، آپ نے تو اپنے جرم کا اعتراف کرنا ہے۔ عورت کوئی چڑیا تو نہیں ہے، جسے پہلے قید کرلیا جائے اور پھر ثواب کی نیت سے آزاد کروایا جائے۔ پورے فسانے میں اُس ثواب کا ہی ذکر کیوں ہو جو دراصل کمایا ہی نہیں گیا۔ اس جرم کا اعتراف کیوں نہ ہو، جو معلوم بھی ہے اور معروف بھی ہے۔ 

باچا خان اگر ہوتے تو میران شاہ کا اکٹھ دیکھ کر ذرا سا مایوس ہوتے کہ وقت کا پہیہ دقیانوسی کے کس کیچڑ  میں پھنس کر رہ گیا ہے۔ ثنا اعجاز کو رہنما کی حیثیت میں مردوں سے خطاب کرتا ہوا دیکھتے تو خوش ہو جاتے کہ کچھ روشنی باقی تو ہے ہرچند کہ کم ہے۔ لوگوں یک آواز ہو کر ثنا اعجاز کی بات کی تائید کرتا ہوا دیکھتے تو انہیں نشتر پارک کا اکٹھ یاد آجاتا۔ لوہا گرم دیکھ کر ہلکی سی ضرب لگاتے ہوئے کہتے، تو پھر وعدہ کرو کہ ہم عورتوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ سب سے پہلے میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں رکاوٹ نہیں بنوں گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں