’بجٹ غیر آئینی ہے‘، حزب اختلاف کا منی بجٹ لانے کا اعلان
عبدالستار، اسلام آباد
27 اپریل 2018
پاکستان میں دوہزار اٹھارہ اور انیس کا بجٹ پیش کیے جانے کے بعد ہی اسے حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے غیر آئینی قرار دے دیا اور ملک میں منی بجٹ لانے کی بھی باتیں شروع کردی ہیں۔
اشتہار
بجٹ نئے نویلے وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے قومی اسمبلی میں پیش کیا، جہاں حزبِ اختلاف کے احتجاج کے باعث ایوان میں شور شرابا رہا۔ حکومت مخالف جماعتوں نے بجٹ کی کاپیاں بھی پھاڑیں اور حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے۔
پی پی پی کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے کہ وہ یہ بجٹ پیش کرے۔ پارٹی کے ایک رہنما اور سابق وزیرِ مملکت برائے صنعت و پیداوار آیت اللہ درانی نے اس بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’حکومت کچھ ہی دن کی مہمان ہے۔ کچھ ہی دنوں میں نگراں حکومت آجائے گی۔ جو حکومت خود کچھ دن کی مہمان ہو وہ کیسے پورے سال کا بجٹ پیش کر سکتی ہے اور وہ بھی ایک ایسا بجٹ جس میں کئی طویل المدتی منصوبوں کا تذکرہ ہو۔ اگر ہم اقتدار میں آئے تو ہم منی بجٹ بنائیں گے اور اس میں ضروری تبدیلیاں بھی کریں گے۔ ہمارے خیال میں یہ بجٹ غیر آئینی ہے۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ نو ماہ میں سیاسی نااہلیاں
28 جولائی 2017 کو پاکستان کے اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ گزشتہ نو ماہ میں چار سیاسی رہنماؤں کی نااہلیوں کے عدالتی فیصلوں کی تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
نواز شریف
پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو جولائی 2017 میں نا اہل قرار دے دیا تھا۔ اسی تناظر میں نواز شریف کو وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ اس فیصلے نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی تھی۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
جہانگیر ترین
مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی نےعمران خان، درمیان میں، اور جہانگیر ترین، تصویر میں انتہائی دائیں جانب، کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ان دونوں کو اثاثے چھپانے، جھوٹ بولنے اور دوسرے ممالک سے فنڈز لینے کی وجہ سے نا اہل قرار دیا جائے۔ اس کیس کا فیصلہ دسمبر 2017 میں سنایا گیا تھا جس میں جہانگیر ترین کو تا حیات نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/ZUMA Press
نہال ہاشمی
اس سال فروری میں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نہال ہاشمی کو پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کو عدلیہ کو دھمکانے کا مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں ایک ماہ سزائے قید بھی سنائی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/
نواز شریف پر تاحیات پابندی بھی
اس سال اپریل میں پاکستانی سپریم کورٹ نے نواز شریف کے سیاست میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی بھی عائد کر دی تھی۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بینچ نے سنایا تھا۔ اس وقت 68 سالہ سابق وزیراعظم نواز شریف تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Pakistan Muslim League
خواجہ آصف
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اپریل کو پاکستان مسلم لیگ نون کے رکنِ قومی اسمبلی اور اب تک وزیر خارجہ چلے آ رہے خواجہ آصف کو پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے نا اہل قرار دے دیا۔ عدالت نے خواجہ آصف کو بھی پاکستانی دستور کے آرٹیکل 62(1)(f) کی روشنی میں پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کر دیا۔ سپریم کورٹ کے مطابق اس آرٹیکل کے تحت نااہلی تاحیات ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency
5 تصاویر1 | 5
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ سیاسی جماعتوں کے سیاسی پروگرام کی عکاسی کرتا ہے۔ ’’ہمارے اور نون لیگ کے سیاسی پروگرام میں بہت فرق ہے۔ ان کے نزدیک نجکاری، کمیشن والے ترقیاتی کام اور کم وقت میں زیادہ مال بنانے والے پراجیکٹس اہم ہیں لیکن ہم عوام دوست منصوبوں پر یقین رکھتے ہیں، جس میں لوگوں کی تعلیم ، صحت اور روزگار زیاد ہ اہم ہیں۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف بھی حکومت کی طرف سے بجٹ پیش کرنے پر چراغ پا ہے۔پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ نہ صرف عوام دشمن ہے بلکہ اس کی آئینی حیثیت بھی نہیں ہے۔ پارٹی کے مرکزی ایڈیشنل انفارمیشن سیکریڑی سینیٹر فیصل جاوید خان کا کہنا ہے کہ پارٹی اقتدا ر میں آکر بجٹ میں تبدیلیاں کرے گی۔
فیصل جاوید کے مطابق، ’’سب سے پہلے مفتاح اسماعیل کو جس طرح وفاقی وزیر بنایاگیا وہ ایک غیر آئینی طریقہ تھا۔ پھر اس غیر آئینی طریقے سے وزیر بننے والے شخص نے یہ بجٹ پیش کیا۔ حکومت کچھ ماہ کے لیے بجٹ بنا سکتی تھی لیکن چند دنوں کی مہمان حکومت کیسے پورے سال کا بجٹ بنا سکتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ پورا عمل ہی غیر آئینی ہے۔‘‘
نون لیگ کے خیال میں حزبِ اختلا ف کے الزامات اور دعووں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ پارٹی کے سینیئر رہنما اور سینیٹ میں قائدِ ایوان راجہ ظفر الحق نے اپنی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ مفتاح اسماعیل کا تقرر غیر آئینی ہے۔ خورشید شاہ صاحب اور اپوزیشن کے دوسرے ارکان کو آئین کی آرٹیکل انیس کا مطالعہ کرنا چاہیے، جس کے تحت کوئی بھی شخص جو پارلیمنٹ کا رکن نہ ہو، چھ مہینے کے لیے نہ صرف وفاقی وزیر بن سکتا ہے بلکہ وزیرِ اعظم بھی بن سکتاہے ۔ یہ صرف چھ ماہ کی مدت کے لیے ہے۔ مفتاح اسماعیل تو بہت تھوڑے وقت کے لیے وزیر بنے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ ن لیگ کا حق تھا کہ وہ بجٹ پیش کرے۔ ’’ہم عوام کی منتخب کردہ حکومت ہیں، تو کوئی ہمیں بجٹ پیش کرنے سے کیسے روک سکتا تھا۔ کل کوئی اور منتخب حکومت آکر اس میں تبدیلی کر سکتی ہے۔ اس میں اس طر ح احتجاج کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پی پی پی نے آج پی ٹی آئی کے زیرِ قیادت احتجاج کیا، جو مناسب نہیں تھا۔
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔