بحران زدہ علاقوں میں جنسی تشدد کے خلاف عالمی قرارداد منظور
24 اپریل 2019
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنگی اور بحران زدہ علاقوں میں جنسی تشدد کے خلاف جرمنی کی طرف سے پیش کردہ ایک قرارداد منظور کر لی ہے۔ اس قرارداد میں عالمی برادری سے ایسے تشدد کے خلاف بھرپور اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اشتہار
نیو یارک میں مقامی وقت کے مطابق منگل تئیس اپریل کی شام منظور کردہ اس قرارداد کا تعلق بحران زدہ اور مسلح تنازعات کے شکار علاقوں میں جنسی تشدد اور جنسی زیادتیوں سے ہے اور عالمی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں کونسل کے رکن پندرہ میں سے تیرہ ممالک نے اس کی تائید کی۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک میں سے دو، روس اور چین نے اس مسودہ قرارداد پر اپنی رائے محفوظ رکھی۔
اس سے قبل کونسل کے ایک اور مستقل رکن ملک امریکا نے یہ دھمکی دے دی تھی کہ وہ اس قرارداد کو ویٹو کر سکتا تھا۔ اس پر ویٹو سے بچنے کے لیے مسودے کے متن میں کچھ ترامیم کر دی گئی تھیں۔ یہ مسودہ قرارداد جرمنی کی طرف سے پیش کیا گیا تھا، جس کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا تھا کہ بحران زدہ خطوں میں جنسی تشدد اور ریپ جیسے جرائم کی جلد از جلد اور مؤثر روک تھام کی جائے۔
’سب کچھ نہیں، لیکن بہت کچھ‘
اس قرارداد کی منظوری پر اقوام متحدہ میں جرمن سفیر کرسٹوف ہوئسگن نے مجموعی طور پر بہت اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی ویٹو سے بچنے کے لیے مسودے میں کچھ ترمیم تو کی گئی تھی اور ’’ہم نے سب کچھ ہی تو حاصل نہیں کیا، مگر بہت کچھ حاصل کر لیا گیا ہے۔‘‘
جرمنی ان دنوں عالمی سلامتی کونسل کا صدر ملک ہے اور اس اجلاس کے لیے وفاقی جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس بھی خاص طور نہ صرف نیو یارک میں تھے بلکہ انہوں نے سکیورٹی کونسل کے اس اجلاس کی صدارت بھی کی۔ ماس نے قرارداد کی اکثریتی رائے سے اور بغیر کسی مخالفت کے منظوری کو ایک ’سنگ میل‘ قرار دیا۔
تین ’بڑوں‘ کا اعتراض
شروع میں اس قرارداد کی دستاویز میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ایک ایسا مستقل بین الاقوامی طریقہ کار تشکیل دیا جائے، جس کی مدد سے بحران زدہ علاقوں میں جنسی تشدد اور ریپ جیسے جرائم کے مرتکب مجرموں کا تعاقب کرتے ہوئے انہیں سزائیں دی جا سکیں۔ اس پر نہ صرف امریکا کو اعتراض تھا بلکہ روس اور چین کی طرف سے متن کے اس حصے کی مخالفت کی گئی تھی۔ اس لیے قرارداد کی منظوری کو یقینی بنانے اور ویٹو سے بچنے کے لیے جو مسودہ منظور کیا گیا، اس میں سے یہ مطالبہ نکال دیا گیا تھا۔
ایتھوپیا سے فرار ہونے والے انوآک مہاجرین کی حالت زار
ایتھوپیا میں انوآک نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد عشروں سے حکومت کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ متعدد انوآک باشندے پڑوسی ملک جنوبی سوڈان کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ ان مہاجرین کی حالت زار کیا ہے اور یہ کیا محسوس کرتے ہیں؟
تصویر: DW/T. Marima
خاندان سے دوبارہ ملاپ
انتیس سالہ اوکوالہ اوچنگ چام کو اپنے ملک ایتھوپیا سے جنوبی سوڈان پہنچنے کا خطرناک سفر طے کرنے میں دو سال کا عرصہ لگا۔ چام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میرے پاس جنوبی سوڈان جانے کے لیے بس کا کرایہ نہیں تھا اس لیے میں نے پیدل ہی یہ سفر اختیار کیا۔‘‘ رواں برس اپریل میں چام بالآخر جنوبی سوڈان میں قائم گوروم مہاجر کیمپ پہنچا جہاں اس کی بیوی اور تین بچے پہلے سے موجود تھے۔
تصویر: DW/T. Marima
ٹھہر جائیں یا واپس چلے جائیں؟
اس تصویر میں انوآک اقلیت کے بچے مہاجر کیمپ کے باہر بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ چام نے بغاوت کے الزام میں ایتھوپیا کی جیل میں کئی سال گزارے ہیں۔ اُس کی رائے میں ایتھوپیا واپس جانا انوآک نسلی اقلیت کے لوگوں کے لیے محفوظ نہیں ہے۔
تصویر: DW/T. Marima
بالآخر تحفظ مل گیا
مہاجر خاتون اکواٹا اوموک بھی جنوبی سوڈان کے اس مہاجر کیمپ میں مقیم دو ہزار ایتھوپین مہاجرین میں سے ایک ہیں جو نسل کی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد سے فرار ہو کر یہاں آئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
کیا گھر واپس جانا بھی ایک راستہ ہے؟
جنوبی سوڈان میں دارالحکومت جوبا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گوروم مہاجر کیمپ کی رہائشی اکواٹا اوموک چودہ سال قبل ترک وطن سے پہلے کھیتی باڑی کا کام کرتی تھیں۔ انتہائی مشکل حالات میں رہنے کے باوجود اوموک ایتھوپیا واپس جانے کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ اگر ایتھوپیا اب آزاد ہے تو میں واپس جاؤں گی اور اگر ایسا نہیں تو پھر جانا ممکن نہیں۔‘‘
تصویر: DW/T. Marima
اہل خانہ ایک دوسرے سے جدا
گوروم مہاجر کیمپ کی رہائشی ایک خاتون جلانے کے لیے لکڑی کاٹ رہی ہے۔ ایتھوپیا سے نسلی تشدد کے سبب فرار ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ مرد حضرات کو اکثر بغاوت کا الزام عائد کر کے گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ ایسی صورت میں عموماﹰ عورتوں کو ہی گھر کے تمام کام سرانجام دینے پڑتے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
گوروم مہاجر کیمپ کیا واقعی محفوظ ہے؟
انوآک اقلیت کے کچھ بچے کیمپ میں ایک ایسے بورڈ کے سامنے کھڑے ہیں جس پر لکھا ہے کہ یہ کیمپ اسلحہ فری زون ہے۔ تاہم اس کیمپ پر بھی اس وقت حملہ ہو چکا ہے جب جنوبی سوڈانی مسلح گروپ ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے۔
تصویر: DW/T. Marima
گھر سے دور
ایتھوپیا کے نو منتخب وزیر اعظم آبی احمد نے دیگر معاملات کے ساتھ مختلف نسلی گروہوں کو دیوار سے لگانے کے معاملے کو بھی حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ملک میں بدلتی سیاسی فضا کے باوجود تاہم نسلی بنیادوں پر ظلم اب بھی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تازہ تنازعے کے سبب ایتھوپیا سے ایک ملین افراد فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
مہاجرین کے نئے قافلے
اس تصویر میں گوروم مہاجر کیمپ کے استقبالیے پر انوآک مہاجرین کے ایک نئے گروپ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ روزانہ کے حساب سے اوسطاﹰ پندرہ سے بیس مہاجرین یہاں پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Marima
8 تصاویر1 | 8
اس دستاویز میں اس امکان کا ذکر بھی ہے کہ بحرانوں اور مسلح تنازعات کے شکار جن علاقوں میں جنسی تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے گا، ان خطوں کے خلاف اقوام متحدہ کی طرف سے خصوصی پابندیاں بھی عائد کی جا سکیں گی۔ مزید یہ کہ جن ممالک میں ایسے جرائم کا ارتکاب کیا جائے گا، وہاں کی حکومتوں کو آئندہ ایسے جرائم کا نشانہ بننے والے انسانوں کی مدد اور بحالی کے لیے اب تک کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور کافی اقدامات کرنا ہوں گے۔
جنسی تشدد بھی ایک جنگی ہتھیار
اس قرارداد کے تناظر سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا میں بہت سے بحران زدہ خطوں میں جنسی تشدد کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ گوٹیرش نے کہا، ’’ایسے زیادہ تر جرائم کبھی رپورٹ ہی نہیں ہوتے، نہ ان کی کبھی چھان بین کی جاتی ہے اور ایسے جرائم کے مرتکب مجرموں کو عدالتوں کے سامنے جواب دہ بنانے کا رجحان تو نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘
انٹونیو گوٹیرش نے کہا، ’’دنیا کے تمام ممالک کی حکومتوں کو جنگی اور بحران زدہ علاقوں میں خواتین اور بچیوں کے تحفظ کے لیے زیادہ اقدامات کرنا چاہییں۔ اس لیے کہ بہت سے مسلح گروہ، شدت پسند اور دہشت گرد جس جنسی تشدد کا راستہ اپناتے ہیں، ان میں عورتوں اور لڑکیوں کو جنسی غلام بنا لینا اور ان کی جبری طور پر کرائی جانے والی شادیاں بھی شامل ہیں۔‘‘
م م / ع ا / ڈی پی اے، اے ایف پی
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ خواتین کو قانونی سرپرست کی اجازت کے بغیر ہی ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جائیں گے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ اس اسلامی جمہوریہ میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کس طرح مثبت انداز میں بدل رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن 1955: لڑکیوں کے لیے پہلا اسکول
سعودی عرب میں لڑکیاں اس طرح کبھی اسکول نہیں جا سکتی تھیں، جیسا کہ ریاض میں لی گئی اس تصویر میں نظر آ رہا ہے۔ سعودی عرب میں لڑکیوں کو اسکولوں میں داخلے کا موقع پہلی مرتبہ سن 1955 میں ملا تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ سن 1970 میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن2001 : شناختی کارڈز کا اجراء
اکیسویں صدی کے آغاز پر سعودی عرب میں خواتین کے لیے پہلی مرتبہ شناختی کارڈز کا اجراء شروع کیا گیا۔ کسی مشکل صورت میں مثال کے طور پر وارثت یا جائیداد کے کسی تنازعے میں ان خواتین کے لیے یہ کارڈ ہی ایک واحد ایسا ثبوت تھا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کر سکیں۔ آغاز میں یہ کارڈز صرف مرد سرپرست کی اجازت سے ہی جاری کیے جاتے تھے۔ تاہم سن دو ہزار چھ میں اس پابندی کا خاتمہ بھی کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
سن2005 : جبری شادیوں کا اختتام ( کاغذی سطح پر)
سعودی عرب میں سن دو ہزار پانچ میں قانونی طور پر خواتین کی جبری شادیوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تاہم آج بھی اس اسلامی ریاست میں حقیقی طور پر کسی خاتون کا اپنی رضا مندی سے شادی کرنا ناممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔ اب بھی سعودی عرب میں شادیوں کے حتمی فیصلے لڑکیوں کے والد اور ان کے ہونے والے شوہر ہی کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A.Hilabi
سن 2009 : پہلی وزیر خاتون
سن دو ہزار نو میں شاہ عبداللہ نے ملک کی پہلی خاتون حکومتی وزیر کو چنا۔ تب نورہ بنت عبد الله الفايز کو نائب وزیر برائے تعلیم نسواں مقرر کیا گیا تھا۔
تصویر: Foreign and Commonwealth Office
سن 2012 : اولمپک مقابلوں کے لیے پہلی خاتون ایتھلیٹ
سعودی عرب نے سن دو ہزار بارہ میں پہلی مرتبہ اجازت دے دی کہ اولمپک مقابلوں کے لیے ملکی خواتین ایتھلیٹس کا دستہ بھی بھیجا جائے گا۔ اس دستے میں سارہ عطار بھی شامل تھیں، جنہوں نے اس برس لندن منعقدہ اولمپک مقابلوں میں ہیڈ اسکارف کے ساتھ آٹھ سو میٹر ریس میں حصہ لیا۔ تب ایسے خدشات تھے کہ اگر ریاض حکومت نے ملکی خواتین کو ان مقابلوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی تو سعودی عرب پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J.-G.Mabanglo
سن 2013: موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت
سعودی عرب کی حکومت نے سن دو ہزار تیرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس کے لیے سیر و سیاحت کے کچھ مقامات کو مختص کیا گیا۔ خواتین باقاعدہ مکمل لباس کے ساتھ اپنے مرد رشتہ داروں کے ساتھ ہی وہاں جا کر اپنا یہ شوق پورا کر سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سن 2013: مشاورتی شوریٰ میں خواتین کی نمائندگی
فروری سن دو ہزار تیرہ میں شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی مشاورتی کونسل کے لیے تیس خواتین کا انتخاب کیا۔ تب اس قدامت پسند ملک میں خواتین کے لیے ان اہم عہدوں پر فائز ہونے کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: REUTERS/Saudi TV/Handout
سن 2015: ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق
سعودی عرب میں سن دو ہزار پندرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت ملی۔ اسی برس اس ملک میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں خواتین پہلی مرتبہ الیکشن میں حصے لینے کی بھی اہل قرار پائیں۔ نیوزی لینڈ وہ پہلا ملک تھا، جس نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا، یہ بات ہے سن 1893 کی۔ جرمنی میں خواتین کو ووٹ کا حق 1919ء میں ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Batrawy
سن 2017: سعودی اسٹاک ایکسچینج کی خاتون سربراہ
فروی سن دو ہزار سترہ میں سعودی اسٹاک ایکسچینج کی سربراہ کے طور پر سارہ السحیمی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سعودی عرب میں اس اہم عہدے پر کسی خاتون کا تقرر عمل میں آیا۔
تصویر: pictur- alliance/abaca/Balkis Press
سن 2018: ڈرائیونگ کی اجازت
چھبیس ستمبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ خواتین کو گاڑی چلانے کی قانونی اجازت دی جا رہی ہے۔ جون سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین کو ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اپنے کسی مرد سرپرست سے اجازت لیں یا گاڑی چلاتے ہوئے مرد سرپرست کو بھی ساتھ بٹھائیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
سن 2018: اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت
انتیس اکتوبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی عرب کی ’جنرل اسپورٹس اتھارٹی‘ نے اعلان کیا کہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین ملک میں قائم تین بڑے اسپورٹس اسٹیڈیمز میں جا کر وہاں منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں سے لطف انداز ہو سکیں گی۔