بحران زدہ علاقوں میں ہزاروں بچے سکیورٹی فورسز کی قید میں
28 جولائی 2016اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے تحفظ کے ادارے ہیومن رائٹس واچ کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں اس بارے میں دستاویزات درج ہیں جن سے پتا چلا ہے کہ چھ بحران زدہ ممالک میں انسداد دہشت گردی کے نام پر ہونے والے آپریشن کے دوران بچوں کو حراست میں لیے جانے کے واقعات میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ ان ممالک میں افغانستان، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو، عراق، نائجیریا، شام اسرائیل اور فلسطینی علاقے شامل ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی بچوں کے حقوق کی وکالت کرنے والی ایجنسی کے ڈائریکٹر ’جو بیکر‘ کے بقول، ’’شورش زدہ ممالک کی حکومتوں کی طرف سے مسلح انتہا پسندوں کے گروپ جیسے کہ ’آئی ایس آئی ایس‘ اور بوکو حرام کے خلاف کارروائیوں کے دوران ہم نے نہایت خطرناک رجحان دیکھا۔‘‘
اس بارے میں مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے ’جو بیکر‘ کا کہنا تھا، ’’ان حکومتوں کی طرف سے بغیر کسی الزام کے ہزاروں بچوں کو اکثر مہینوں یہاں تک کہ سالوں کے لیے حراست میں لیا گیا۔ ان میں سے اکثر بچوں کو اذیت دی گئی اور ان کے ساتھ ناروا سلوک برتا گیا۔‘‘
شام میں قائم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی دستاویزات کے مرکز کے حوالے سے ہیومن رائٹس واچ کی Caesar کے عنوان سے شائع ہونے والی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بحران زدہ عرب ریاست کی جنگ اب چھٹے سال میں داخل ہو چُکی ہے۔ اس دوران کم از کم ایک ہزار چار سُو تینتیس بچوں کو حراست میں لیا جا چُکا ہے جن میں سے محض 436 کی رہائی عمل میں آئی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق Caesar رپورٹ میں شائع ہونے والی تصاویر میں، جنہیں ایک شامی باغی یا مفرور نے اسمگل کیا تھا، اذیت رسانی کا شکار ہونے والے زیادہ تر 18 سال سے کم عمر کے لڑکوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان ہی میں سے ایک 14 سالہ احمد المسلمانی بھی ہے جسے 2012 ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اسے حراست میں لینے کی وجہ یہ تھی کہ سیریئن افسروں کو اس کے موبائل فون پر ایک ایسے گیت کی ریکارڈنگ ملی تھی جو شامی صدر بشارالاسد کی حکمرانی کے خلاف تھا۔ یہ 14سالہ نوجوان قید میں ہی وفات پا گیا تھا۔
ہیومن رائٹس کی رپورٹ سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ خواتین اور بچے خاص طور سے مردوں کی اذیت رسانی اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ بعض کیسز میں انہیں بجلی کے جھٹکے دے کر ان سے جھوٹے اقرار کروانے، عورتوں اور بچوں کے جسموں کو سگریٹ سے جلانے اور انہیں شدید طریقے سے زدو کوب کرنے کے واقعات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
ایمنسٹی کی اس رپورٹ سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ رواں برس فروری اور مئی کے درمیان شمال مشرقی نائجیریا کی جیوا بیریکس میں چھ سال سے کم عمر کے 11 بچے جن میں دو نوزائیدہ بھی شامل ہیں حراست میں رکھے گئے۔ مزید برآں یہ کہ کم از کم 120 بچے ابھی بھی جیوا بیرکس میں ناگفتہ بہ صورتحال میں زیر حراست ہیں۔