بحران کے دو سال، جرمنی میں پناہ گزینوں کا انضمام کیسا رہا؟
اے ایف پی
31 اگست 2017
سن دو ہزار پندرہ میں جرمن چانسلر میرکل نے لاکھوں مہاجرین کے لیے جرمنی کے دروازے کھول کر دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ لیکن یہ تارکین وطن جرمن معاشرے میں ضم ہونے میں کس حد تک کامیاب رہے، اس پر فوئبے کوکے کی رپورٹ پڑھیے۔
اشتہار
سن دو ہزار پندرہ کے آغاز سے اب تک قریب ایک اعشاریہ تین ملین مہاجرین جرمنی میں پناہ حاصل کر چکے ہیں۔ تاہم کم آبادی والی میکلن برگ ویسٹ پومیرینیا کی ریاست تارکین وطن کے لیے مقبول پناہ گاہ ثابت نہیں ہوئی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں وہاں انیس ہزار تارکین وطن میں سے تین چوتھائی کو پناہ دی گئی جو انضمام کا متنازعہ قانون آنے سے قبل ہی جرمنی کی دوسری ریاستوں میں منتقل ہو گئے تھے۔
انیس سالہ تسنیم المُردی، جنہیں سن دو ہزار سولہ میں میکلن برگ ویسٹ پومیرینیا میں پناہ دی گئی تھی، پر بھی اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ کمسن شامی مہاجر لڑکی جلد از جلد اس ریاست سے منتقل ہونا چاہتی ہے لیکن انضمام کے قانون کے تحت اسے یہاں تین سال رہنا ہو گا۔ المُردی کا کہنا ہے،’’یہاں رہنا زندگی کا سب سے برا تجربہ ہے۔ میرے بہت سے دوست مغربی جرمنی میں رہ رہے ہیں اور انہیں کبھی وہاں غیر ملکیوں سے نفرت اور خوف کے واقعات کا سامنا نہیں ہوا۔ مجھے بہت حیرانی ہے کہ یہاں کے لوگوں کا رویہ کتنا غیر دوستانہ ہے۔‘‘
یہ امر قابل توجہ ہے کہ مشرقی جرمنی کی ریاستوں نے مغربی جرمنی کی ریاستوں کے مقابلے میں غیر ملکیوں کے ساتھ غیر دوستانہ رویہ رکھنے میں کافی شہرت حاصل کی ہے۔ جرمنی میں نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی ریاست کی سترہ اعشاریہ ایک ملین کی آبادی جو سابق مشرقی جرمنی کی کُل آبادی سے زیادہ ہے اور جس میں ایک لاکھ سے زائد ترک نژاد شہری بھی شامل ہیں،خاص طور پر مہاجرین کی جانب جھکاؤ رکھتی ہے۔
رینے فیورورک میکلن برگ فورپومرن میں تسنیم المردی سمیت مہاجرین کو اُن کے پناہ کے حقوق کے حوالے سے مشورے دیتے ہیں۔ اڑتیس سالہ فیورورک کے مطابق،’’ لوگ سمجھتے ہیں کہ مشرقی جرمنی نازیوں سے بھرا ہوا ہے۔ سابقہ مغربی جرمنی میں مہاجرت کی تاریخ زیادہ پرانی ہے۔‘‘
فیورورک نے مزید کہا کہ کچھ شامی مہاجرین یہاں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ رینے فیورورک کے بقول،’’ اگر وہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر بوخُم جائیں تو وہاں سب کچھ عربی میں کہہ سکتے ہیں۔ لیکن یہاں آپ کو جرمن سیکھنا لازمی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ آپ بہتر طور پر آباد ہو سکتے ہیں اور یہاں مقامی لوگوں سے زیادہ روابط بھی استوار کر سکتے ہیں۔‘‘
حلب کی شہری تسنیم المُردی بھی مشرقی جرمنی کی اس ریاست میں ضم ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔
المردی کے مطابق،’’ بہترین تو یہی ہے کہ لوگ مجھ سے بلکل بات چیت نہ کریں۔ کیونکہ وہ جب بھی مجھ سے بات کرتے ہیں برا بھلا ہی کہتے ہیں۔ اور یہ اس لیے کہ میں حجاب کرتی ہوں۔ میں یہاں سے نکلنا چاہتی ہوں لیکن نہیں نکل سکتی۔‘‘
بحران کے بعد سکون کا احساس برلن کے نوئے کولن ڈسٹرکٹ میں ایک گروپ آلپ کی جانب سے چلائے جانے والے ایک مرکز کے مہاجرین میں پایا جاتا ہے۔ اس مرکز کے باسیوں میں بغیر سرپرست کے جرمنی آنے والے سولہ سے بیس برس کی عمر کے لڑکے ہیں۔ آلپ کا مقصد ان نوجوان لڑکوں کو جرمن معاشرے میں آزادانہ طور پر ضم ہونے کی کوششوں میں مدد دینا ہے۔
جرمن سماجی کارکن یونس کی رائے میں تارکین وطن سے متعلق عوامی بحث در اصل جرمن سوسائٹی میں ان کے انضمام میں رکاوٹ کا سبب ہے۔ یونس کے بقول،’’ خواہ لوگ یہاں یہ بات نہ سننا چاہیں لیکن جرمنی ہمیشہ سے تارکین وطن کا ملک رہا ہے۔ باہر سے آنے والی ثقافتیں ہمیشہ خوبصورتی لاتی ہیں اور میرے خیال میں جرمنی متعدد ثقافتوں کا مجموعہ ہے۔‘‘
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔