بحرین اسرائیل کے ’جرائم‘ کا حصہ دار بن گیا ہے، ایران
12 ستمبر 2020
بحرین کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے فیصلے کے بعد تہران نے کہا ہے کہ بحرین اب اسرائیلی ’جرائم‘ میں حصہ دار بن گیا ہے۔
اشتہار
عرب ریاست بحرین نے جعمہ 11 ستمبر کو فیصلہ کیا کہ وہ یہودی ریاست اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لائے گی۔ اس فیصلے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کی طرف اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں تنہائی کو ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی انتظامیہ کی ان سفارتی کوششوں کا ایک مقصد مشرق وُسطیٰ میں ایران کی مخالف ایسی ریاستوں کے درمیان تعاون بڑھانا ہے جو ایران کے خلاف امریکی تحفظات میں شریک ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور بحرین کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کا اعلان نائن الیون حملوں کو 19 برس مکمل ہونے کے موقع پر کیا۔ اس سے قبل انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اور بحرین کے شاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ سے ٹیليفون پر گفتگو کی۔ تینوں سربراہوں نے ایک مختصر مشترکہ بیان بھی جاری کیا جس میں اسرائیل اور بحرین کے تعلقات معمول پر لانے کے فیصلے کا بتایا گیا۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران بحرین دوسری ایسی عرب ریاست بن گئی ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بحرین اور اسرائیل کے تعلقات معمول پر لانے کے فیصلے کا اعلان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اس اہم تقریب سے ایک ہفتہ قبل سامنے آیا ہے جس میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات تعلقات کی مکمل بحالی کے معاہدے پر دستخط کریں گے۔ اس تقریب میں بحرین کے وزیر خارجہ بھی شریک ہوں گے اور وہ نیتن یاہو کے ساتھ ایک الگ معاہدے پر دستخط کریں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بحرین اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے فیصلے کے اعلان کے بعد تہران نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ بحرین اب اسرائیلی 'جرائم‘ میں حصہ دار بن گیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''بحرین کے حکمرن اب سے آگے صیہونی ریاست کے جرائم کے حصہ دار ہوں گے، جو علاقے اور عالم اسلام کی سلامتی کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہے۔‘‘
خیال رہے کہ متحدہ امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی امن معاہدے کے بعد اسرائیلی انٹلیجینس کے وزیر ایلی کوہن نے کہا تھا کہ اسرائیل کے مزید خلیجی ریاستوں اور افریقہ کے مسلم ممالک کے ساتھ اضافی معاہدے ہو سکتے ہیں۔
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرح کئی دیگر عرب اور مسلم ممالک اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے جلد طے پا سکتے ہیں۔ موجودہ معاہدے پر مسلم ممالک کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
تصویر: Israel Prime Ministry Office
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters//Royal Palace/Y. Allan
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔