بحرین میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی
16 مارچ 2011بحرین کی وزارت دفاع نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ دارالحکومت مناما کے پرل اسکوائر پر گزشتہ کچھ ہفتوں سے جمع مظاہرین کے خلاف تیز تر کارروائیاں کی جائیں گی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ فورسز کو کرفیو کے نفاذ، ہجوم کو منتشر کرنے اور علاقے خالی کرانے کا اختیار حاصل ہے۔
ایمرجنسی حالت تین ماہ تک نافذ رہے گی۔ اس تناظر میں اختیارات سکیورٹی فورسز کو سونپ دیے گئے ہیں، جن میں اکثریت سنی ایلیٹ کی ہے۔
دوسری جانب خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہسپتال ذرائع نے بتایا ہے کہ جھڑپوں میں تین افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ان میں سے دو افراد شیعہ اکثریتی علاقے ستارہ میں ہلاک ہوئے، جن میں ایک بحرین کا شہری ہے جبکہ دوسرا بنگلہ دیشی ہے۔ مختلف مقامات پر ہونے والی جھڑپوں میں دو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
بحرین کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق جھڑپوں کے دوران ایک پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوا ہے۔ ٹی وی رپورٹ میں سعودی فوجی کی ہلاکت کی تردید کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ بحرین میں حالات پر قابو پانے میں مدد دینے کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے سکیورٹی فورسز بھیج رکھی ہیں۔
بحرین کو 1990ء کی دہائی کے بعد کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔ وہاں گزشتہ ماہ سے مظاہرین سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں، جنہیں مصر اور تیونس میں حکومت مخالف مظاہروں سے تحریک ملی۔
تاہم ان ممالک کی طرح وہاں سنی آبادی حکومت کے خلاف کھڑی نہیں ہوئی بلکہ آبادی کے درمیان فرقہ واریت کی لکیر کھنچی ہوئی ہے، جس سے خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔
اُدھر امریکی حکام نے کہا ہے کہ واشنگٹن انتظامیہ کو بحرین میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت پر تشویش ہے۔ خیال رہے کہ امریکہ سعودی عرب اور بحرین، دونوں ممالک کا اتحادی ہے جبکہ امریکی بحریہ کا ففتھ فلیٹ بحرین کے سمندر میں ہے۔
قاہرہ میں دیے گئے ایک بیان میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ انہوں نے تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کروانے کے لیے اپنے سعودی ہم منصب سے کوششیں تیز کرنے کے لیے کہا ہے۔ امریکہ نے سعودی عرب سے یہ بھی کہا ہے کہ عسکری حل بحرین میں حالات پر قابو پانے کے لیے مناسب نہیں ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: افسر اعوان