بحرین کے وزیر خارجہ نے بدھ 18 نومبر کو اسرائیل کے اپنے پہلے سفر پر روانہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی مدد سے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے کو بعد کسی بھی بحرینی وزیر کا یہ اسرائیل کا پہلا سفر ہوگا۔
اشتہار
اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور رشتوں کو بہتر کرنے کے مقصد سے سعودی عرب کے اہم اتحادی ملک بحرین کے وزیر خارجہ عبدالطیف الزیانی اسرائیل کا دورہ کرنے والے ہیں۔ حال ہی میں امریکا کی ثالثی میں بات چیت کے بعد دونوں ملکوں نے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس دورے کا مقصد فریقین میں رشتوں کو مزید مضبوط کرنا ہے۔ ان کے ساتھ ایک بحرینی وفد بھی تیل ابیب روانہ ہوگا اور یہ دونوں ملکوں کے درمیان حکومتی سطح پر پہلا تاریخی دورہ ہوگا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق بحرین کے وزیر خارجہ اپنے دورے کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اسی دوران اسرائیل کا دورہ کرنے والے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے بھی بات چیت کریں گے۔
امریکا کی مدد سے 15 ستمبر کو اسرائیل اور بحرین کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کا ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ اس سے پہلے سوڈان اور متحدہ عرب امارت نے بھی اسرائیل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تعاون میں اضافہ
ماہ ستمبر میں ہی متحدہ عرب امارت اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سیاست، زراعت، تجارت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ویزا جیسے امور پر تعاون میں اضافے کے لیے مفاہمت کی ایک یادداشت پر بھی دستخط کیے تھے۔
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرح کئی دیگر عرب اور مسلم ممالک اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے جلد طے پا سکتے ہیں۔ موجودہ معاہدے پر مسلم ممالک کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
تصویر: Israel Prime Ministry Office
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters//Royal Palace/Y. Allan
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Nabil
10 تصاویر1 | 10
بحرین کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق، ''یہ دورہ خطہ مشرق وسطی میں امن عمل کی حمایت کے لیے بحرین کی مستحکم اور مستقل پوزیشن کی تصدیق اور اسرائیل کے ساتھ اقتصادی مواقع اور دوطرفہ معاہدوں کے تناظر میں کیا جا رہا ہے۔''
اشتہار
مشرق وسطی میں بنیادی تبدیلی
ٹرمپ انتظامیہ نے بحرین اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لیے دو ہفتوں تک انتھک کوششیں کی تھیں۔ اس کے لیے مذاکرات میں ٹرمپ کے داماد اور ان کے سینیئر مشیر جیراڈ کشنر اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان دونوں نے خود بحرین کا دورہ کر کے بحرین کے شاہ اور ولی عہد سے ملاقاتیں کی تھیں اور ان سے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کی گزارش کی۔
اسرائیل میں امریکی سفارت کار ڈیوڈ فرائڈمین کا کہنا ہے کہ طاقت کی بنیاد پر ٹرمپ کی امن پالیسی نے دنیا کو بہتری کے لیے تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔''ہم مشرق وسطی کے منظر نامے میں مکمل تبدیلی دیکھ رہے ہیں جو بہت مثبت ہے۔''
گزشتہ اگست میں جب متحدہ عرب امارت نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا تو پچھلے20 برسوں میں وہ ایسا کرنے والا پہلا عرب ملک تھا۔ 15 ستمبر کو بحرین اور متحدہ عرب امارت نے اردن اور مصر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات استوار کر لیے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دیگر عرب ریاستیں بھی جلد ہی اس میں شامل ہوجائیں گی۔
مزيد فلسطينی علاقہ ضم کرنے کے اسرائيلی منصوبے پر احتجاج
01:30
سعودی عرب نے اس وقت اس راستے پر تو چلنے سے منع کیا ہے تاہم اس نے بھی اسرائیل کی شہری ہوابازی کمپنیوں کو اپنا فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ بحرین سعودی عرب کا قریبی اتحادی ملک ہے۔ جب بھی بحرین میں حکومت کے خلاف کوئی مظاہرہ یا احتجاج ہوا ہے تو سعودی عرب اس کی مدد کے لیے اپنی فوج روانہ کرتا رہا ہے۔
بہار عرب کے دوران بھی جب بھی کویت یا پھر متحدہ عرب امارات میں لوگ اپنے حقوق کے لیے باہر نکلے یا پھر حکومت کے خلاف آواز اٹھائی تو سعودی عرب نے حکومت کی مدد کے لیے اپنی فوج روانہ کی۔ بحرین میں امریکا کے دو فوجی اڈے بھی ہیں جہاں بڑی تعداد میں فوجی تعینات ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں فلسطین کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ فلسطینی متحدہ عرب امارات کے اس اقدام کو فلسطین اور اس کی عوام کے لیے 'پیٹھ میں خنجر گھونپنے‘ کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اور حماس دونوں نے عرب ممالک کے ان فیصلوں پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔
ص ز / ج ا (روئٹرز، اے پی)
عرب اسرائیل جنگ کے پچاس برس مکمل
پچاس برس قبل عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ تفصیلات اس پکچر گیلری میں
تصویر: AFP/Getty Images
اسرائیلی فوج نے حملے کے بعد تیزی کے ساتھ پیش قدمی کی
پانچ جون کو اسرائیلی فوج نے مختلف محاذوں پر حملہ کر کے عرب افواج کی اگلی صفوں کا صفایا کر دیا تا کہ اُسے پیش قدمی میں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
اسرائیلی فوج نے حملے میں پہل کی تھی
عالمی برادری اور خاص طور پر امریکا اِس جنگ کا مخالف تھا اور اُس نے واضح کیا کہ جو پہلے حملہ کرے گا وہی نتائج کا ذمہ دار ہو گا مگر اسرائیلی فوجی کمانڈروں کا خیال تھا کہ حملے میں پہل کرنے کی صورت میں جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
تصویر: Keystone/ZUMA/IMAGO
مشرقی یروشلم پر بھی اسرائیل قابض ہو گیا
اسرائیلی فوج کے شیرمین ٹینک دس جون سن 1967 کو مشرقی یروشلم میں گشت کرتے دیکھے گئے تھے۔ شیرمین ٹینک امریکی ساختہ تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Guillaud
چھ روز جنگ میں اسرائیلی فوج کو فتح حاصل ہوئی
اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کا کئی علاقوں پر قبضہ، پھر اُن کا اسرائیل میں انضمام اور دنیا کے مقدس ترین مقامات کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں پیدا تنازعہ مزید شدت ہو گیا۔
تصویر: Imago/Keystone
عرب افواج کے جنگی قیدی
پچاس برس قبل اسرائیلی فوج نے حملہ کرتے ہوئے عرب ممالک کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا اور بے شمار فوجیوں کو جنگی قیدی بنا لیا۔
تصویر: David Rubinger/KEYSTONE/AP/picture alliance
جزیرہ نما سینائی میں اسرائیلی فوج کی کامیاب پیش قدمی
مصر کے علاقے جزیرہ نما سینائی میں مصری افواج اسرائیل کے اجانک حملے کا سامنا نہیں کر سکی۔ بے شمار فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اسرائیلی فوج نے مصری فوج کی جانب سے خلیج تیران کی ناکہ بندی کو بھی ختم کر دیا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
ہر محاذ پر عرب ممالک کو پسپائی کا سامنا رہا
غزہ پٹی پر قبضے کے بعد ہتھیار پھینک دینے والے فوجیوں کی پہلے شناخت کی گسی اور پھر اسرائیلی فوج نے چھان بین کا عمل مکمل کیا گیا۔