بحری جہازوں کا سب سے بڑا قبرستان
9 اپریل 2013دنیا بھر میں جو بحری جہاز اپنی مدت پوری کر لیتے ہیں، اُن میں سے تقریباً چالیس فیصد کو اسی جگہ توڑ کر الگ الگ کیا جاتا ہے۔ چٹاگانگ اور اُس کے آس پاس کے علاقوں میں اُن دروازوں، کھڑکیوں یا بستروں کا کاروبار عروج پر ہے، جو ان پرانے بحری جہازوں سے حاصل کیے جاتے ہیں۔
شپ بریکنگ یارڈ پر کام کے خراب حالات
بحری جہازوں کو توڑنے کا کام بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک مثلاً پاکستان اور بھارت میں بھی جاری ہے۔ اس سرگرمی کا ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ مزدوروں کو بہت کم اجرت ملتی ہے اور کام کے دوران اُن کی سلامتی کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ جہازوں کے مختلف حصے توڑنے کے عمل کے دوران ضرر رساں مادوں کا اخراج ماحول کو بھی متاثر کرتا ہے اور مزدوروں کو بھی۔
بنیادی طور پر بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے فلمساز شاہین دل ریاض 1992ء سے جرمن دارالحکومت برلن میں رہتے ہیں۔ اُنہوں نے 2008ء میں موقع پر جا کر بنگلہ دیش کے اِس شپ بریکنگ یارڈ کو دیکھا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جہازوں کے ٹوٹ کر نیچے گرنے والے حصوں یا ٹوٹ جانے والے آہنی تاروں کی زَد میں آ کر مزدور اپنے ہاتھ یا پاؤں سے محروم ہو جاتے ہیں اور یہ روزمرہ معمول کا ایک حصہ ہے‘۔ اپنی فلم ’آئزن فریسر‘ یعنی ’لوہا کھانے والے‘ میں اُنہوں نے ان مزدوروں کے مشکل حالات دکھائے ہیں۔
دل ریاض کو سب سے زیادہ دکھ اس بات پر ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت ہی نہیں بلکہ وہ یورپی جہاز راں کمپنیاں بھی خاموش تماشائی بنی اس ظلم کو دیکھ رہی ہیں، جو جنوبی ایشیا میں توڑے جانے والے تقریباً 75 فیصد بحری جہازوں کی مالک ہیں۔
یورپی یونین: ذمے داری میں جہاز راں کمپنیوں کی شرکت
یورپی یونین کی کوشش اب یہ ہے کہ جہازوں کو توڑنے کی ذمے داری میں جہاز راں کمپنیوں کو بھی شریک کیا جائے۔ اب تک کا معمول یہ تھا کہ یورپ میں سفر کے لیے استعمال میں لائے جانے والے نئے بحری جہازوں کو تقریباً آٹھ برس بعد یورپی یونین سے باہر واقع کسی ملک کو فروخت کر دیا جاتا تھا اور کئی سال بعد اسے توڑنے کی نوبت آتی ہے۔ کسی جہاز کو توڑنے پر اٹھنے والے اخراجات ہمیشہ جہاز کے آخری مالک ادارے کو ادا کرنا ہوتے ہیں، نہ کہ پہلے مالک کو۔
یورپی پارلیمان کے چند ایک ارکان کے مطابق اب ایک خصوصی فنڈ قائم کیا جانا چاہیے، جس کے تحت ہر یورپی جہاز راں کمپنی کو بندرگاہ کی عمومی فیس کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کی کسی بندرگاہ میں داخل ہوتے وقت بحری جہاز کے ایک ٹن وزن کے حساب سے تین سینٹ ادا کرنا ہوں گے۔ مطلب یہ کہ ایک لاکھ ٹن وزنی جہاز کو تین ہزار یورو ادا کرنا ہوں گے اور بعد ازاں یہی رقم جنوبی ایشیا کے شپ بریکنگ یارڈز کی مدد کے لیے فراہم کی جا سکتی ہے تاکہ وہاں کام اور تحفظ ماحول کے حالات کو بہتر بنایا جا سکے۔
دوسری جانب جہاز راں کمپنیوں کو شپ بریکنگ کے عمل کے دوران اٹھنے والے اخراجات میں شرکت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اُن کی نمائندہ تنظیموں کا کہنا یہ ہے کہ برس ہا برس بعد اگر کسی جہاز کو غلط طریقے سے توڑا جاتا ہے تو اِس کی ذمے داری اُن لوگوں پر کسی طور پر بھی عائد نہیں کی جا سکتی، جو سب سے پہلے اس جہاز کے مالک تھے۔
جرمن جہاز راں کمپنیوں کی مرکزی تنظیم کے ناظم الامور رالف ناگل کے مطابق بہتر یہ ہے کہ پہلے سے موجود ضوابط مثلاً 2009ء کے ہانگ کانگ کنونشن پر عملدرآمد کی صورت حال کو بہتر بنایا جائے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جہازوں کو توڑنے کا عمل انسانی وقار سے ہم آہنگ حالات اور ماحول کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انجام دیا جانا چاہیے۔ تاہم اس کنونشن کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب تک کسی بھی ملک نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔
فلمساز شاہین دل ریاض کے مطابق بحری سفر سے متعلق بین الاقوامی تنظیم IMO یا پھر اقوام متحدہ کی متعلقہ تنظیم کو بھی اس ضمن میں اپنی ذمے داری پوری کرنی چاہیے جبکہ مقامی حکومتیں بھی ان یارڈز کو جدید تر بنانے کے عمل میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے نہ صرف ان یارڈز پر کام کرنے والے مزدوروں کے روزگار کو محفوظ بنا سکتی ہیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی ترقی دے سکتی ہیں۔
F.Taube/aa/zb