بحری جہاز پر پھنسے مہاجرین کو بالآخر اٹلی نے قبول کر لیا
5 جولائی 2020
مہاجرین کی طرف سے خودکشی کی کوششوں کے بعد اٹلی نے بالآخر اوشن وائکنگ نامی بحری جہاز پر پھنسے ان پناہ گزینوں کو اپنے ہاں قبول کر لیا۔ اس جہاز پر 180 مہاجرین سوار ہیں۔
اشتہار
'اوشن وائکنگ‘ ایک پرائیویٹ بحری جہاز ہے جو سمندر میں پھنسے مہاجرین کو ڈوبنے سے بچانے کی سرگرمیوں میں شریک ہے۔ سمندروں میں مہاجرین کی مدد کرنے والی یورپی امدادی تنظیم 'ایس او ایس میڈیٹرینی‘ کے مطابق اس بحری جہاز نے 22 جون کے بعد سے بحیرہ روم میں چار مختلف مقامات سے مشکلات میں گھرے مہاجرین کو بچایا تھا جن کی مجموعی تعداد 180 کے قریب بنتی ہے۔ یہ مہاجرین لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوششوں میں تھے۔
اس بحری جہاز کو اس وقت کے بعد سے اٹلی اور مالٹا کی سات مختلف بندرگاہوں پر لنگرانداز ہونے کی اجازت دینے سے انکار کیا جا چکا تھا۔ ایس او ایس میڈیٹرینی نے جمعہ تین جولائی کو بتایا تھا کہ اس جہاز پر موجود مہاجرین کی صورتحال اس قدر دگرگوں ہو چکی تھی کہ ان میں سے کئی افراد نے خودکشی کرنے کی کوشش کی۔
اطالوی حکام نے اب طبی ماہرین کی ایک ٹیم اس بحری جہاز پر روانہ کی ہے جو جہاز پر موجود افراد میں کورونا وائرس کی موجودگی کے ٹیسٹ کریں گے، جس کے بعد پیر چھ جولائی کو ان مہاجرین کو سسلی کی بندرگاہ کے قریب موجود 'موبی زازا‘ نامی بحری جہاز پر منتقل کر دیا جائے گا۔ جہاں وہ احتیاطی پر طور قرنطینہ میں کچھ وقت گزاریں گے۔
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زی ہوفر نے یورپی یونین کے دیگر ممالک سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ بحیرہ روم سے بچائے جانے والے مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک صرف پانچ یا چھ ممالک نے ہی یہ کام کیا ہے۔
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
6 تصاویر1 | 6
زی ہوفر نے جرمن اخبار 'ویلٹ آم زونٹاگ‘ سے بات کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ جرمنی کی یورپی یونین کی صدارت کے عرصے میں مہاجرین کے حوالے سے ایک سیاسی معاہدہ طے پا جائے گا۔ اس میں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی ابتدائی چھان بین سے لے کر ایسے افراد کی ان کے وطن واپسی کے معاملات تک شامل ہوں گے جن کی درخواستیں نامنظور ہوں گی۔ زی ہوفر کے مطابق، ''صرف انہی لوگوں کو یورپی یونین کے اندر مختلف ممالک میں بسایا جائے گا جو خود کو لاحق خطرات کے دعووں کو ثابت کریں گے۔‘‘
روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں میں کورونا وائرس پھیلنےکا خوف