1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحيرہء چين کے جزائر پر چينی جاپانی تنازعہ

14 ستمبر 2012

مشرقی بحيرہء چين کے چند غير آباد جزيروں پر چين اور جاپان کے درميان تنازعہ اب اور شديد ہو گيا ہے کيونکہ جاپان نے ان پانچ ميں سے تين جزيروں کو ايک جاپانی شہری سے خريد ليا ہے۔

تصویر: AP

 چين کے قوم پرست اس پر بہت برہم ہيں اور جنگ کے نعرے لگا رہے ہيں۔

بيجنگ ميں جاپانی سفارت خانے اور جاپانی سفير کی رہائش گاہ کے سامنے روزانہ ہی مظاہرے کيے جا رہے ہيں، جن ميں جاپان کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہيں۔ مظاہرين کا کہنا ہے کہ مشرقی بحيرہء چين کے يہ جزيرے چين کی ملکيت ہيں۔ چينی دارالحکومت ميں کسی قسم کے مظاہرے برداشت نہيں کيے جاتے ہيں ليکن حکام ان مظاہروں کی اجازت دے رہے ہيں، حتٰی کہ صحافيوں کو بھی مظاہرين تک رسائی دی جا رہی ہے۔ مظاہرين ميں سے ايک نے کہا:  ’’چھوٹے سے جاپان کو ديايو جزيروں کو بالکل نہيں چھيڑنا چاہيے۔ ہميں فوراً جنگ شروع کر دينا چاہيے۔‘‘ 

جاپانی چينی جنگ: 1937تصویر: Bundesarchiv - Bild 183-S34828

چينی حکومت اس حد تک تو نہيں جائے گی ليکن اس نے بحريہ کی کشتيوں کو ان غير آباد جزائر کی طرف روانہ کر ديا ہے۔ ميڈيا کی خبروں کے مطابق يہ کشتياں جمعے کو جاپان کی سمندری حدود ميں داخل ہوئيں۔ چين کے مطابق جاپانی رياست کا ان جزيروں کو خريدنا غير قانونی ہے۔ چينی وزارت خاجہ کے ترجمان ہونگ لائی نے کہا:  ’’ہميں اميد ہے کہ جاپان اس غلط فيصلے کو واپس لے لے گا اور چين کی حاکميت اعلٰی کی خلاف ورزی کرنے والی سرگرميوں کو روک دے گا‘‘

اس کے ساتھ ہی چينی ترجمان نے مزيد اقدامات کی دھمکی بھی دی ليکن اس بارے ميں کو ئی تفصيلات نہيں بتائيں۔ ديايو يا سنکاکو کہلانے والے يہ پانچ غير آباد جزيرے جو برسوں سے جاپان کے زير انتظام ہيں ليکن جن پر چين اور تائيوان کا بھی دعوٰی ہے، ايسے سمندری علاقے ميں واقع ہيں جہاں مچھليوں کی کثرت ہے۔ يہاں سمندر کی تہہ ميں تيل اور قدرتی گيس کے بہت بڑے ذخائر پوشيدہ ہونے کا بھی اندازہ ہے۔ 

دوسری عالمی جنگ: 1945، چين ميں جاپانی فوج ہتھيار ڈال رہی ہےتصویر: picture alliance/akg-images

چين ميں دوسری عالمی جنگ کے دوران کئی چينی علاقوں پر جاپانی قبضے کو ابھی تک فراموش نہيں کيا گيا ہے۔ اسی ليے پرانی تذليل کا بدلہ لينے کے ليے انٹرنيٹ پر جنگ اور جاپانی مصنوعات کے بائيکاٹ  کے مطالبے کيے جا رہے ہيں۔ جاپانی اشيا کا بائيکاٹ خاص طور پر جاپان کے ليے خسارے کا باعث ہوگا۔ چين اُس کا اہم ترين تجارتی ساتھی ہے۔ ليکن چين کو بھی اس بائيکاٹ سے خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پچھلے سال دونوں ممالک کے درميان تقريباً 340 ارب ڈالر ماليت کی اشيا کا تبادلہ ہوا تھا۔

R.Kirchner,sas/M.Dittrich,sks

 .

S

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں