ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یونان پہنچنے کی کوشش کے دوران ایک کشتی ڈوبنے کے واقعے میں ایک نو سالہ بچہ ہلاک ہو گیا ہے۔ اس کشتی پر سوار باقی افراد بچ گئے۔
اشتہار
یونان کے سرکاری ریڈیو کی جانب سے بتایا گیا ہےکہ یہ کشتی یونانی جزیرے کاسٹیلوریزو کی قریب سمندری موجوں سے شکست کھا کر الٹ گئی۔ اس کشتی پر 26 افراد سوار تھے، جن میں سے پانچ تارکین وطن کو یونانی کوسٹ گارڈ نے ریسکیو کر لیا، جب کہ دیگر 20 خود تیر کر جزیرے تک پہنچ گئے۔ حکام کے مطابق تاہم نو سالہ مہاجر بچہ اس دوران جان بر نہ ہو سکا۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ہائپرتھرمیا یا جسم کا درجہ حرارت انتہائی حد تک گر جانے کی وجہ سے یہ بچہ زندگی کی بازی ہار گیا۔ فی الحال اس بچے کی شناخت یا شہریت کے حوالے سے تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
واضح رہے کہ یونانی جزیرہ کاسٹیلوریزو ترک ساحلی علاقے سے تین کلومیٹر سے بھی کم کے فاصلے پر ہے۔ اس جزیرے کی موسم سرما میں کل آبادی 150 نفوس تک رہ جاتی ہے اور موسم گرما میں دنیا بھر سے سیاح اس جزیرے کا رخ کرتے ہیں۔
ایلان سے اومران تک مہاجرت کا سفر، مصائب ختم نہیں ہوئے
سن دو ہزار پندرہ اور سن دو ہزار سولہ میں یورپ میں بڑے پیمانے پر تارکین وطن کی آمد کی تصاویر دنیا بھر میں گردش کرتی رہیں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہوئیں۔ تاہم مہاجرین کے مصائب کا مکمل احاطہ آج تک نہیں کیا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA
یونانی جزائر میں پڑاؤ
گزشتہ دو برسوں میں لاکھوں افراد جنگوں اور تنازعات کے باعث اپنے ممالک کو چھوڑ کر ترکی کے ذریعے یونان پہنچے۔ یونانی جزائر لیبسوس، شیوس اور ساموس میں اب بھی دس ہزار کے قریب تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں اس سال جنوری سے مئی تک چھ ہزار نئے پناہ گزین بھی پہنچے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
یورپ کی جانب پیدل سفر
سن دو ہزار پندرہ اور سولہ میں ایک ملین سے زائد تارکین وطن نے ترکی اور یونان کے بعد ’بلقان روٹ‘ پر پیدل سفر کرتے ہوئے مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش کی۔ مہاجرین کا یہ بہاؤ اُس وقت تھما، جب اس راستے کو باقاعدہ اور مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Mitchell
ایلان کُردی
اس تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ستمبر دو ہزار پندرہ میں تین سالہ شامی بچے ایلان کردی کی لاش ترکی کے ایک ساحل پر ملی۔ یہ تصویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر مہاجرین کے بحران کی علامت بن گئی، جس کے بعد یورپ کے لیے اس بحران کو نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/DHA
بلقان روٹ کی بندش
ہزاروں افراد نے یہ جاننے کے بعد کہ اب بلقان روٹ زیادہ عرصے تک کھلا نہیں رہے گا، کروشیا میں پہلے سے بھری ہوئی بسوں اور ٹرینوں میں سوار ہونے کی کوشش کی۔ اکتوبر سن دو ہزار پندرہ میں ہنگری نے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. J. Mitchell
ہنگری کی خاتون صحافی
ستمبر 2015ء میں ہنگری کی صحافی پیٹر لازسلو اس وقت عالمی خبروں میں آئی تھیں، جب میڈیا پر ایک فوٹیج جاری ہوئی تھی، جس میں وہ سرحد عبور کرنے والے ایک مہاجر کو ٹانگ اڑا کر گراتی ہیں، جب کہ یہ مہاجر اس وقت اپنے بازوؤں میں ایک بچہ بھی اٹھائے ہوئے تھا۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
مہاجرین پر تشدد
مارچ سن دو ہزار سولہ میں بلقان روٹ کی بندش کے بعد بلقان کی ریاستوں کے سرحدی راستوں پر افسوسناک مناظر دیکھنے میں آئے۔ سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران مہاجرین پر ظالمانہ تشدد کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
پانچ سالہ شامی بچے اومران کی یہ تصویر جب سن دو ہزار سولہ میں منظر عام پر آئی تو دنیا بھر میں لوگ صدمے کی کیفیت میں آ گئے۔ شامی صدر بشار الاسد کے حامیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس اس تصویر کو پروپیگنڈا مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Aleppo Media Center
نیا لیکن انجان گھر
یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر کھینچی گئی یہ تصویر ایک شامی مہاجر کی ہے، جو برستی بارش میں اپنی بیٹی کو اٹھا کر لے جا رہا تھا، اس امید پر کہ اُس کے خاندان کو یورپ میں اچھا مستقبل ملے گا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
مدد کی امید
جرمنی تارکین وطن کی پسندیدہ ترین منزل ہے۔ جرمن چانسلر میرکل پناہ گزینوں کے لیے آئیکون کا درجہ رکھتی ہیں۔ تاہم اب بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے بعد جرمن حکومت نے مہاجرت کے حوالے سے قوانین کو سخت بنا دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
بحیرہ روم میں اموات
جنگوں، تنازعات اور غربت سے راہ فرار اختیار کر کے بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ پہنچنے کے خواہشمند تارکین وطن خطرات سے پُر سمندری راستے بھی اختیار کرتے ہیں۔ رواں برس اب تک اٹھارہ سو، جب کہ سن دو ہزار سولہ میں پانچ ہزار مہاجرین غیر محفوظ کشتیوں پر بحیرہ روم کے سفر کے دوران اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Morenatti
10 تصاویر1 | 10
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق رواں برس کے آغاز سے اب تک قریب 12 سو تارکین وطن ترکی سے اس جزیرے پر پہنچے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس مارچ میں یورپی یونین اور انقرہ حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد بحیرہء ایجیئن کے راستے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، تاہم اس ڈیل سے قبل اس راستے کو استعمال کرتے ہوئے قریب ایک ملین افراد یورپی یونین میں داخل ہوئے تھے۔
مہاجرین کا بحران، یورپی عوام کی رائے ایک برس میں کیا سے کیا ہو گئی
03:32
مہاجرین کے اس بہاؤ میں کمی کی ایک وجہ گزشتہ اٹھارہ ماہ سے بلقان ریاستوں کی جانب سے اپنی اپنی قومی سرحدوں کی بندش بھی ہے، کیوں کہ اسی راستے کو استعمال کرتے ہوئے مہاجرین کی بڑی تعداد نے سن 2015ء میں مغربی یورپ کا رخ کیا تھا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک شامی مہاجر بچے ایلان کردی کی ترک ساحل سے ملنے والی لاش کی تصویر سامنے آنے کے بعد ہی یورپ بھر میں مہاجرین کے حوالے سے ہم دردی میں اضافہ ہوا تھا۔