بحیرہء جنوبی چین کا تنازعہ: آسیان اجلاس میں اتفاق رائے نہ ہو سکا
13 جولائی 2012
جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم آسیان کا یہ اجلاس کمبوڈیا میں نوم پنہ میں ہوا۔ خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس تنظیم کی 45 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی کانفرنس کا بغیر کسی اختتامی اعلامیے کے ختم ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس بلاک کے رکن ملکوں میں پائی جانے والی تقسیم کتنی گہری ہے۔
آسیان کے رکن ملکوں کی تعداد 10 ہے اور ان ریاستوں میں بحیرہء جنوبی چین کی ملکیت کے حوالے سے تنازعے کے فریق چار مختلف ممالک ہیں۔ ان ریاستوں میں چین اور تائیوان بھی شامل ہیں۔
اس اجلاس کے ناکام رہنے کے سلسلے میں آسیان کے تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے سیکرٹری جنرل سُورین پِٹسُووان (Surin Pitsuwan) نے بعد میں کہا کہ تنظیم کے رکن دو دوسرے ملک فلپائن اور ویت نام چاہتے تھے کہ جو اختتامی اعلان جاری کیا جائے، اس میں اس سمندری علاقے سے متعلق تنازعے اور اس وجہ سے کشیدگی کا بھی ذکر کیا جائے۔ بحیرہء جنوبی چین کی ملکیت کے اسی جھگڑے کی وجہ سے حال ہی میں چین اور فلپائن کے مابین باقاعدہ فوجی کشیدگی بھی پیدا ہو گئی تھی۔
آسیان کے اس اجلاس کے بعد فلپائن کے دفتر خارجہ نے میزبان ملک کمبوڈیا پر الزام لگایا کہ اس نے بار بار اس بات کی مخالفت کی کہ اختتامی اعلان میں اس حالیہ کشیدگی کا کوئی ذکر ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس کمبوڈیا نے یہ اعلان کر دیا کہ اس اجلاس کا کوئی اختتامی اعلامیہ جاری نہیں کیا جا سکتا۔
فلپائن کی خارجہ امور کی وزارت کی طرف سے اس الزام کے بعد کمبوڈیا کے وزیر خارجہ ہور نامہونگ نے کہا، ’یہ درست ہے کہ کمبوڈیا کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں تاہم بحیرہء جنوبی چین کی ملکیت کے تنازعے میں کمبوڈیا کسی بھی ملک کی حمایت نہیں کرتا‘۔
کمبوڈیا کے وزیر خارجہ نے آج جمعے کو یہ بھی کہا کہ اگر آسیان کے رکن ملک اپنی کانفرنس کے اختتام پر کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں کر سکے تو اس کا الزام صرف کمبوڈیا پر نہیں لگایا جا سکتا۔ ہور نامہونگ کے مطابق اس پہلی ناکامی کی ذمہ داری اس تنظیم کے رکن تمام ملکوں پر عائد ہوتی ہے۔
ij / mm (AP))