بحیرہٴ روم میں مہاجرین کا چودہ گھنٹے طویل سفر کیسا ہوتا ہے؟
شمشیر حیدر30 اپریل 2016
یورپی بحریہ کا صوفیہ نامی جنگی بحری بیڑا اس سال اب تک چھ سو تارکین وطن کو بحیرہٴ روم میں ڈوبنے سے بچا چکا ہے، اس مشن میں جرمن نیوی بھی شریک ہے۔ بحیرہٴ روم کے چودہ گھنٹے طویل سفر کے دوران مہاجرین پر کیا گزرتی ہے؟
اشتہار
جرمن بحریہ کا ’فرینکفرٹ‘ نامی جہاز بحیرہٴ روم میں جاری اس یورپی مشن کا حصہ ہے جو تارکین وطن کو بچانے کے علاوہ انسانی اسمگلروں کے خلاف بھی سرگرم ہے۔
’فرینکفرٹ‘ پر کیے گئے اعلان میں بتایا گیا کہ بحیرہٴ روم کے کھلے پانیوں میں تارکین وطن کی پانچ کشتیوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ اعلان کے فوراﹰ بعد امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے جہاز روانہ ہو گیا۔ اس امدادی مشن کے دوران جرمن بیڑے کے علاوہ ہسپانوی اور اطالوی بحری بیڑے بھی ہمراہ تھے۔
ہر کوئی مدد کا طلبگار
امدادی کارکنوں نے سب سے پہلے ربڑ کی ایک سفید کشتی دیکھی جو بحیرہٴ روم کے کھلے پانیوں میں ہچکولے کھا رہی تھی۔ کشتی میں سوار تارکین وطن نے جب ’فرینکفرٹ‘ کے امدادی اہلکاروں کو دیکھا تو سبھی مدد کے لیے پکارنے لگے۔ ہر کوئی چاہتا تھا کہ اسے سب سے پہلے بچایا جائے، ان سب کی آنکھوں میں خوف نمایاں تھا۔
ان تارکین وطن کو بچانے کے لیے بحری جہاز سے چھوٹی کشتیوں کو روانہ کر دیا گیا۔ تیز ہوا اور بپھری لہروں میں پھنسے ان تارکین وطن میں مردوں اور عورتوں کے علاوہ بچے بھی شامل تھے۔ فرینکفرٹ کے کمانڈر کا کہنا تھا، ’’اس سے پہلے کہ سمندر کی لہریں پھر بپھر جائیں، ہمارے پاس تارکین وطن کو بچانے کے لیے بہت مختصر وقت ہے۔‘‘
بے چینی اور تھکن
امدادی کارکیوں نے پریشان حال تارکین وطن کو خستہ حال کشتی سے نکال کر آخر کار جرمن بحری بیڑے ’فرینکفرٹ‘ تک پہنچا دیا۔ طویل سمندری سفر کے دوران موت کا سامنا کرنے کے بعد اب سبھی تارکین وطن جہاز کے تختے پر ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئے۔
منہ پر ماسک چڑھائے اور سفید حفاظتی گاؤن پہنے بحری بیڑے پر تعینات ڈاکٹرز ان سب کا ابتدائی طبی معائنہ کریں گے۔ ان سینکڑوں صدمہ زدہ اور خوفزدہ تارکین وطن کو پرسکون کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ طبی عملہ چہروں پر مسکراہٹ سجائے ان کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں لیکن پناہ گزینوں کے ذہنوں پر حاوی خوف اور خدشات ان کے چہروں پر نمایاں ہے۔
’ہمارے ساتھ جھوٹ بولا گیا‘
جرمن امدادی کارکنوں کو تارکین وطن کے ساتھ طویل گفتگو کی اجازت نہیں ہے۔ بحری بیڑے کا کام ان تارکین وطن کو کھلے پانیوں سے نکال کر اٹلی کے جزیرے سسلی تک پہنچانا ہے۔ جرمن اہلکاروں کو ان پناہ گزینوں سے انسانی اسمگلروں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے صرف پانچ منٹ تک گفتگو کرنے کی اجازت ہے۔
بحیرہٴ روم میں چودہ گھنٹے طویل اور خطرناک سفر کرنے والوں میں عبدالقادر بھی شامل ہے۔ اس نے جرمن اہلکاروں کو بتایا، ’’میں نے اس خطرناک راستے کا انتخاب بلاوجہ نہیں کیا۔ میں یورپ جا کر کام کرنا چاہتا ہوں اور ایک باعزت زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔‘‘
عبدالقادر نے اس خطرناک سفر کے لیے بھاری رقم ادا کی تھی لیکن اس کے مطابق اسمگلروں نے تارکین وطن کے ساتھ جھوٹ بولا تھا۔ عبدالقادر کے مطابق، ’’اسمگلروں نے ہمیں بین الاقوامی پانیوں میں لا کر چھوڑ دیا اور کہا کہ کشتی میں اتنا ایندھن موجود ہے کہ وہ ہمیں اٹلی کے ساحلوں تک پہنچا دے گی۔‘‘
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘