بحیرہ احمر میں تین بحری جہاز غرقاب، متعدد حوثی باغی ہلاک
1 جنوری 2024
امریکہ نے بحیرہ احمر میں میرسک کنٹینر کے جہاز پر ایرانی حمایت یافتہ حوثی عسکریت پسندوں کے حملے کو ناکام بنا دیا۔ اس واقعے میں تین بحری جہازوں کے غرقاب اور 10 عسکریت پسندوں کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاع ہے۔
اشتہار
امریکی حکام اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے مطابق بحیرہ احمر میں اتوار کے روز امریکی ہیلی کاپٹروں نے مارسک کنٹینر کے جہاز پر حوثی عسکریت پسندوں کے حملے کو ناکام بنا دیا۔
امریکی سینٹرل کمانڈ(سینٹ کام) کا کہنا ہے کہ بحیرہ احمر میں یہ واقعہ اتوار کے روز اس وقت پیش آیا، جب حوثی حملہ آوروں نے سنگاپور کے پرچم والے کارگو کمپنی میرسک کے ایک جہاز پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔
سینٹ کام کے مطابق جہاز کو بچانے کے لیے امداد کی کال موصول ہوئی تھی، جس کے فوری بعد خطے میں موجود امریکی بحریہ کے بیڑے نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اس جہاز کو سکیورٹی فراہم کی۔
امریکی سینٹرل کمانڈ نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا، ''بحریہ کے ہیلی کاپٹروں نے اپنے دفاع میں جوابی فائرنگ کی، چار کشتیوں میں سے تین ڈوب گئیں اور اس میں سوار افراد بھی ہلاک ہو گئے جبکہ چوتھی کشتی فرار ہو گئی۔ امریکی اہلکاروں یا ان کے ساز و سامان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔''
حوثی باغیوں کا بیان
حوثیوں باغیوں کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اس کے گروپ نے یہ حملہ اس لیے کیا، کیونکہ جہاز کے عملے نے انتباہی کالوں پر توجہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بحیرہ احمر میں امریکی فورسز کی جانب سے ان کی کشتیوں پر حملے کے بعد حوثی بحریہ کے 10 اہلکار ''ہلاک یا پھر لاپتہ'' ہو گئے۔
بحیرہ احمر میں کشیدگی
بحیرہ احمر گزشتہ کچھ دنوں سے یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے مسلسل حملوں کی زد میں رہا ہے، جس کی وجہ سے بڑے جہاز رانی کے اس راستے میں جہازوں کی حفاظت کے لیے امریکہ کو ایک نئی فورس بنانے کے غور کرنا پڑا۔
حوثیوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ حملے غزہ میں جنگ کو ختم کرنے کی حمایت میں کر رہے ہیں۔
بحیرہ احمر سے عالمی سمندری تجارت کا 12 فیصد گزرتا ہے، تاہم ان حملوں کے بعد بعض کارگو کمپنیوں نے اپنے جہازوں کو ادھر سے بھیجنا بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسی وجہ سے امریکہ اور دیگر کئی ممالک نے اس بحری راستے کی حفاظت کے لیے ایک نیا فورس بنانے پر اتفاق کیا۔
امریکی فوج نے گزشتہ ہفتے بھی اعلان کیا تھا کہ اس ایک جنگی جہاز نے یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کی جانب سے بحیرہ احمر میں فائر کیے گئے ایک ڈرون اور ایک اینٹی شپ بیلسٹک میزائل کو مار گرایا۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)
یمن: امدادی تنظیموں کے وسائل ختم ہو رہے ہیں
یمنی جنگ جاری ہے۔ مقامی افراد بیرونی امداد کے ذریعے زندگی کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امدادی تنظیموں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس مناسبت سے ایک ڈونر کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: Mohammed Huwais/AFP/Getty Images
امداد میں کمی
یمن میں انسانی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ یمن کے تیرہ ملین افراد فاقے کی دہلیز پر ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں جاری خانہ جنگی اور امداد میں کمی ہے۔
تصویر: Khaled Ziad/AFP/Getty Images
امداد پر انحصار
کووڈ انیس کے بعد سے دنیا میں بے شمار افراد کو خوراک کی قلت اور بھوک کا سامنا ہے۔ یمن ایک انتہائی محروم ملک ہے جہاں چالیس فیصد آبادی کا انحصار ورلڈ فوڈ پروگرام کی امداد پر ہے۔
تصویر: Khaled Abdullah/REUTERS
پیسے ختم رہے ہیں
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اس ملک میں تیس ملین میں سے تیرہ ملین افراد کے پاس کھانا پینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ادارے کے سربراہ ڈیوڈ بیزلی کا کہنا ہے ایسے مخدوش مالی حالات میں بچوں کو کیسے اور کیوں کر بچا سکتے ہیں۔
تصویر: Giles Clarke/UNOCHA/picture alliance
نامکمل امدادی پیکجز
اس وقت صرف ان فاقہ کش افراد کے مرنے کا امکان ہے، جنہیں پورا راشن بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ڈائریکٹر کیرولین فلائشر کا کہنا ہے ضرورت دو بلین کی ہے اور جو عطیات ملتے ہیں وہ صرف اس رقم کا اٹھارہ فیصد ہیں۔
تصویر: Mohammed Mohammed/XinHua/dpa/picture alliance
یوکرینی جنگ نے صورت حال کو ابتر کر دیا
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد تنازعات میں گھرے علاقوں میں امدادی صورت حال خراب ہو گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام امدادی گندم کا نصف یوکرین سے حاصل کرتا تھا اور جنگ کے شروع ہونے سے قبل قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا تھا۔ ورلڈ بینک کا بھی کہنا ہے کہ یوکرین کی جنگ سے قحط کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
تصویر: AHMAD AL-BASHA/AFP/Getty Images
خونریز خانہ جنگی
یمن میں گزشتہ سات برسوں سے خونریز خانہ جنگی جاری ہے اور اس میں علاقائی ریاستوں کا کردار بھی ہے۔ سن 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے مخلوط عسکری اتحاد نے ایران نواز حوثی ملیشیا کے خلاف جنگ شروع کی تھی۔ حوثی ملیشیا اس وقت بھی دارالحکومت صنعاء پر کنٹرول رکھتی ہے۔
تصویر: imago images/Xinhua
عدن میں افراتفری
سن 2020 سے یمن کے جنوبی شہر عدن کا کنڑول علیحدگی پسند باغیوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ایک اسٹریٹیجک نوعیت کا شہر ہے۔یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنمی حکومت کا آخری ٹھکانا بھی ہے۔ اس شہر میں دہشت گرد گروپ پوری طرح فعال ہیں۔ تصویر سن 2021کے ایک حملے کی ہے، جس میں آٹھ افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Wael Qubady/AP Photo/picture alliance
کوئی شیلٹر نہیں
تیل کی دولت سے مالامال یمنی علاقے مارب کو انتہائی شدید خراب حالات کا سامنا ہے۔ شمال میں یہ عدن حکومت کے زیرِ کنٹرول آخری شہر ہے۔ اس شہر میں جنگی حالات چھائے ہوئے ہیں۔ مارب علاقے پر سعودی جنگی طیارے بمباری بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عام شہریوں کو ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: AFP /Getty Images
ہسپتال بھرے ہوئے ہیں
ہیلتھ کیئر کی صورت حال یمن کے جنگ زدہ علاقوں میں خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ جنگ جاری ہے اور زخمیوں کے ساتھ ساتھ کووڈ انیس کے مریض بھی ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ جزیرہ نما عرب کے غریب ترین ملک میں حالات میں تبدیلی کی صورت حال دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: Abdulnasser Alseddik/AA/picture alliance
اسکول بھی بمباری سے تباہ
سن 2021 کی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق یمن میں جنگی حالات نے تعلیمی سلسلے کو بھی انتہائی برے انداز میں متاثر کر رکھا ہے۔ بیس لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔بمباری سے بے شمار اسکول تباہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Mohammed Al-Wafi /AA/picture alliance
بیچارگی و پریشانی
بجلی، صاف پانی، پٹرول اور اسی طرح کی کئی اشیاء یمن میں دستیاب نہیں ہیں۔ پٹرول اسٹیشنوں پر قطاریں مسلسل لمبی ہوتی جا رہی ہیں۔ امداد کے لیے فنڈ نہیں رہے اور بے چارگی اور پریشانی مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔