1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطر کے وزیر توانائی کا غزہ میں فائر بندی کا مطالبہ

19 فروری 2024

قطر کے وزیر توانائی سعد الکعبی نے بحیرہ احمر میں عدم تحفظ کے خاتمے کے لیے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے تجارتی جہاز رانی کے اس اہم راستے سے ایندھن کی ترسیل میں خلل پڑا ہے۔

Wie klimafreundlich ist die WM in Katar?
تصویر: Ivan Pisarenko/AFP/Getty Images

 سعد الکعبی نے، جو قطر کی سرکاری توانائی کمپنی 'قطر انرجی‘ کے سربراہ بھی ہیں، پیر 19 فروری کے روز کہا کہ بحیرہ احمر میں، جہاں یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے تجارتی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، پائے جانے والے مسئلے کی جڑ  غزہ کی جنگ ہے۔

الکعبی نے قطر کے شمال مشرقی ساحل پر ایک بہت بڑے پیٹروکیمیکل پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے موقع پر ایک نیوز کانفرنس میں کہا، ''امید ہے کہ جلد ہی جنگ بندی ہو جائے گی، جس سے یہ مسئلہ ختم ہو گا تاکہ پوری دنیا پر اس کے اقتصادی اثرات بھی رک جائیں۔‘‘

حوثی باغی کیا کہہ رہے ہیں؟

ادھر یمن میں وسیع تر علاقوں پر قابض حوثی باغیوں نے کہا ہے کہ ان کے نومبر میں شروع ہونے والے حملوں میں ''غزہ کے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اسرائیل سے منسلک جہازوں کو نشانہ‘‘ بنایا گیا۔ یہ سلسلہ گزشتہ سال سات اکتوبر کو  اسرائیل  پر حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہوا تھا، جس  کے بعد سے اسرائیل غزہ پٹی میں اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

اسرائیل - حماس جنگ: یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ

02:08

This browser does not support the video element.

گزشتہ دسمبر میں امریکہ  نے بحیرہ احمر میں تجارتی جہاز رانی کی حفاظت کے لیے میری ٹائم سکیورٹی کی خاطر ''خوشحالی کے محافظ آپریشن‘‘ کا اعلان کیا تھا تاہم امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے حوثیوں کے اہداف پر بار بار کیے جانے والے حملوں کے بعد بھی ان باغیوں کے سمندری حملوں رکے نہیں ہیں۔

 دریں اثنا قطر انرجی سمیت کئی کمپنیوں نے بحیرہ احمر کے راستے سے بچنے کے لیے اپنے جہازوں کا افریقہ کے جنوبی ساحلی خطے کے ارد گرد ہزاروں کلومیٹر  کے فاصلے سے ہی رخ موڑنے کا انتخاب کیا ہے۔ اس حوالے سے قطری وزیر توانائی الکعبی نے کہا، ''اس اقدام سے توانائی کی ترسیل پر آنے والی لاگت اور وقت دونوں میں اضافہ ہو گا۔‘‘

بحیرہ احمر میں حوثی باغیوں نے تجارتی بحری جہازوں کو نشانہ بنایا ہےتصویر: Indian Navy /AP/picture alliance

غزہ کی تازہ صورت حال

پیر انیس فروری کے روز بھی غزہ پٹی سے جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق تازہ خونریزی اس وقت شروع ہوئی جب  اسرائیل  نے خبردار کیا کہ جب تک عسکریت پسند تنظیم حماس تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہیں کرتی، اسرائیل رمضان کے اسلامی مہینے کے دوران بھی غزہ پٹی میں جنوبی رفح کے دور دراز علاقے میں بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا۔

غزہ: جبالیہ مہاجر کیمپ پر اسرائیلی حملے میں درجنوں ہلاکتیں

02:20

This browser does not support the video element.

دوسری جانب ان 1.4 ملین فلسطینیوں کے مستقبل سے متعلق عالمی تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے، جو اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے سبب  غزہ پٹی کے دیگر علاقوں سے مصر کے ساتھ سرحد کے قریب رفح پہنچ چکے ہیں۔ یہ لاکھوں بےگھر فلسطینی خوراک اور ادویات کی شدید قلت کا شکار ہیں اور وہ بھری پڑی عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔

اسرائیلی جنگی کابینہ کے رکن بینی گینٹستصویر: Debbie Hill/ UPI Photo/Newscom/picture alliance

ادھر فلسطینی طبی ذرائع کے بقول غزہ پٹی میں گزشتہ رات کی جانے والی تازہ اسرائیلی عسکری کارروائیوں میں 100 سے زائد  فلسطینی  مارے گئے۔ ان میں کئی خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق ان تازہ ہلاکتوں کے بعد اسرائیلی عسکری کارروائیوں میں اب تک مارے جانے والے فلسطینیوں کی مجموعی تعداد 29,000 ہو گئی ہے۔ وزارت صحت کے مطابق رفح کے شمال میں واقع خان یونس میں سب سے زیادہ لڑائی ہوئی۔

'رمضان میں بھی کارروائی جاری رکھیں گے‘

اسرائیلی جنگی کابینہ کے رکن بینی گینٹس نے کل اتوار 18 فروری کے روز کہا تھا کہ  اسرائیلی  فوج رمضان کے دوران رفح میں ''مزید گہرائی تک‘‘ اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کو تیار ہے۔ گینٹس کے الفاظ میں، ''دنیا کو اور حماس کے رہنماؤں کو علم ہونا چاہیے کہ اگر اسرائیلی یرغمالی رمضان تک گھروں کو نہ لوٹے، تو لڑائی جاری رہے گی۔ ہم اپنی کارروائی مربوط انداز میں کریں گے، امریکی اور مصری شراکت داروں کے ساتھ بات چیت بھی کریں گے، فلسطینی شہریوں کے انخلا میں سہولت فراہم کریں گے اور شہری ہلاکتوں کو ہر ممکن حد تک کم کریں گے۔‘‘

ک م/ م م، ع ا (اے ایف پی، روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں