1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

بحیرہ احمر میں کشیدگی حوثی باغیوں کے لیے ایک ’سنہری موقع‘؟

20 جنوری 2024

حوثیوں کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت میں مال بردار جہازوں پر حملوں سے اس گروہ کو یمن کے اندر سیاسی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ حوثی ان حملوں کے ذریعے بین الاقوامی برادری کو خود سے ڈیل کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

Jemen | Luftangriffe von USA und Großbritannien | Proteste Huthi-Anhänger
تصویر: Mohammed Hamoud/Anadolu/picture alliance

یمن کی حوثی ملیشیا اور بحیرہ احمر میں امریکہ کی زیر قیادت بحری فوجی اتحاد کے درمیان حالیہ کشیدگی کئی طریقوں سے ایرانی حمایت یافتہ حوثی عسکریت پسندوں کے مفاد میں ہے۔  کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق درحقیقت یہ صورتحال حوثیوں کے لیے خوش آئند ہے۔

یمن میں تنازعات سے متعلق تجزیہ کار اور واشنگٹن میں قائم انفارمیشن ریسرچ سینٹر برائے یمن کے سابق ڈائریکٹر ہشام العمیسی کا کہنا ہے، ''حوثی امریکہ کے ساتھ تصادم کا موقع تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''پچھلے آٹھ سالوں سے حوثی اپنے حامیوں کو بتا رہے ہیں کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ جنگ ​​میں ہیں لہذا یہ ان کے لیے ایک سنہری موقع ہے، جس سے انہیں فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘‘

حوثی باغیوں کی جانب سے بحیرہ احمر سے گزرتے ہوئے قبضے میں لیا جانے والا تجارتی بحری جہاز گلیکسی لیڈر تصویر: AFP via Getty Images

سن 2014  میں حوثی باغیوں کی جانب سے یمن کی سعودی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف لڑائی کے بعد سے یہ ملک حالت جنگ میں ہے۔ نو سال سے جاری  لڑائی نے یمن کو حوثیوں کے زیر کنٹرول ملک کے شمال اور مغرب میں تقسیم کر دیا ہے۔ حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں آبنائے باب المندب بھی شامل ہے، جو بحیرہ احمر میں جہاز رانی کے لیے ایک اہم ترین سمندری گزر گاہ ہے۔ یمن کے جنوب میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کا  کنٹرول ہے جب کہ مشرق میں مقامی قبائل کا غلبہ ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں بنیادی ڈھانچے کو بری طرح نقصان پہنچا ہے اور  تنازعات نے مقامی آبادی کو دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک میں دھکیل رکھا ہے۔

کینیڈا میں اوٹاوا یونیورسٹی کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار تھامس جوناؤ نے کہا کہ اب تک صرف ایران نے یمن میں حوثیوں کی حکومت تسلیم کی ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’’وہ بحری جہازوں کو ہائی جیک کر کے، میزائل حملوں اور سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کر کے بین الاقوامی برادری کو خود سے ڈیل کے لیے مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

حوثی پہلے ہی 'جیت چکے ہیں'

غزہ میں اسرائیلی فوج کی حماس کے خلاف جوابی کارروائی کے بعد حوثیوں کی جانب سے بظاہر فلسطینیوں کی حمایت میں بحیرہ احمر میں مال بردار جہازوں پر حملوں نے بڑے پیمانے پر ایک اہم بین الاقوامی تجارتی راستے کو متاثر کیا ہے۔

یمن کے دارالحکومت صنعا میں مقیم ایک 20 سالہ مقامی خاتون منار صالح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حوثیوں کے حملے مجھے خوفزدہ کرتے ہیں کیونکہ ان سے ہمارے کمزور استحکام کو خطرہ ہے۔یمن نے نو سالوں میں حقیقی امن اور استحکام نہیں دیکھا۔‘‘

حوثی باغیون کو انصار اللہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہےتصویر: Mohammed Hamoud/Anadolu/picture alliance

ان یمنی خاتون کے مطابق غزہ میں فلسطینیوں کی حمایت کی جانی چاہیے لیکن ان کے بقول اس سلسلے میں ایسے طریقے اپنائے جائیں، جن میں ''یمن کی قربانی ‘‘ شامل نہ ہو۔ یمنی تھنک ٹینک صنعا سینٹر فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ایک سینئیر محقق عبدالغنی الریانی نے کہا، ''عوام بڑے پیمانے پر حوثیوں کے پیچھے کھڑے ہیں کیونکہ یمنی فلسطینی کاز کے بارے میں بہت پرجوش ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ حوثیوں نے ''یہ تصادم اس دن جیت لیا جس دن انہوں نے پہلا میزائل فائر کیا تھا۔‘‘

 فتح مقصد نہیں

ماہرین کے مطابق حوثیوں کی جانب سے شروع کی گئی لڑائی کا مقصد فتح حاصل کرنا نہیں ہے، وہ بس اشتعال انگیز کارروائیاں کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تنازعہ امریکہ کے مقابلے میں حوثیوں کے لیے کم مہنگا ہے۔ تجزیہ کار ہشام العمیسی کے مطابق بحیرہ احمر میں ایک مال بردار بحری جہاز پر حوثیوں کے ڈرون حملے کی قیمت تقریباً 1,200 ڈالر  ہے، جب کہ امریکی فوجی اتحاد کے حوثیوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے جانے والے ایک بم کی قیمت تقریباً 1.5 ملین ڈالر ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ زمینی کارروائیوں سے بھی حوثیوں کوہی فائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے کہا، ''زمین پرغیر ملکی فوجی بوٹوں سے نہ صرف یمن میں بلکہ علاقائی طور پر بھی حوثیوں کی قانونی حیثیت کو تقویت ملے گی۔‘‘

جینیفر ہولیس ( ش ر⁄ ر ب)

اسرائیل فلسطین تنازعے کا حل اتنا مشکل کیوں؟

15:09

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں