1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتیونان

سمندر میں کشتی الٹنے سے چھ بچوں سمیت آٹھ تارکین وطن ہلاک

25 نومبر 2024

یونانی کوسٹ گارڈز کے مطابق انہیں بحیرہ ایجیئن میں ساموس کے جزیرے کے قریب سمندر سے چھ بچوں اور دو خواتین سمیت کم از کم آٹھ ایسے تارکین وطن کی لاشیں ملی ہیں، جو درجنوں دیگر افراد کے ساتھ یورپی یونین کی طرف سفر میں تھے۔

ایک غیر محفوظ لیکن بھری ہوئی کشتی میں سوار تارکین وطن سمندر میں یورپی یونین کی طرف سفر کرتے ہوئے
اس سال اب تک غیر محفوظ کشتیوں میں پرخطر سمندری سفر کے بعد یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد تقریباﹰ 54 ہزار ہو چکی ہےتصویر: Daniel Kubirski/picture alliance

یونانی دارالحکومت ایتھنز سے پیر 25 نومبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ملکی ساحلی محافظوں کو جزیرے ساموس کے قریب کھلے سمندر سے جو آٹھ لاشیں ملیں، ان میں سے دو خواتین کی تھیں اور باقی چھ نابالغ بچوں کی۔

جرمنی: مستقل سرحدی نگرانی، غیر قانونی افراد کی آمد میں کمی

یہ ہلاک شدگان ان تقریباﹰ پچاس تارکین وطن میں شامل تھے، جو ایک کشتی میں سوار ہو کر غیر قانونی طور پر یورپی یونین میں داخلے کے لیے سفر میں تھے کہ یہ کشتی سمندر میں الٹ کر ڈوب گئی۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ مرنے والوں کا تعلق کس ملک یا کن ممالک سے تھا۔

اس کے علاوہ یونانی پولیس نے ساموس کے جزیرے کے شمالی حصے سے ایسے 36 دیگر تارکین وطن کو ریسکیو بھی کر لیا، جو بظاہر اسی ڈوب جانے والی کشتی کے مسافر تھے اور سمندر میں تیر کو اس جزیرے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

پرتگال میں غیر ملکی مزدوروں کے لیے قوانین سخت بنا دیے گئے

یونانی جزیرے ساموس پر حکومت کا پناہ کے متلاشی تارکین وطن کے لیے قائم کردہ ایک عارضی رہائشی کیمپتصویر: DW

تین دیگر تارکین وطن اسی جزیرے کے ایک چٹانی حصے میں پھنسے ہوئے تھے، انہیں بھی کوسٹ گارڈز نے بچا لیا۔

ہوائی جہاز اور ریسکیو کشتیوں کے ذریعے ممکنہ طور پر زندہ افراد کی تلاش

حکام کے مطابق ملکی کوسٹ گارڈز کو تارکین وطن کی اس کشتی کے سمندر میں ڈوب جانے کا علم ہونے کے بعد تب تک ممکنہ طور پر سمندر میں زندہ افراد کی تلاش کے لیے کی جانے والی کارروائیوں میں ایک ہوائی جہاز اور کئی ریسکیو کشتیوں نے بھی حصہ لیا۔

نیدرلینڈز اور ہنگری سیاسی پناہ کے یورپی قانون سے کیوں نکلنا چاہتے ہیں؟

کوسٹ گارڈز کو سمندر میں اس حادثے کی اطلاع ایک غیر حکومتی امدادی تنظیم نے دی تھی، جس کا اندازہ تھا کہ ڈوبنے سے قبل ساموس کے جزیرے کے قریب تک پہنچ جانے والی اس غیر محفوظ کشتی پر تقریباﹰ 50 انسان سوار تھے، جو پناہ کی تلاش میں یورپی یونین کی طرف سفر میں تھے۔

ریسکیو کیے گئے تارکین وطن یونانی کوسٹ گارڈز کی ایک کشتی سے بندرگاہ پر اترتے ہوئےتصویر: Dimitris Vouchouris/AFP/Eurokinissi

انگلش چینل میں سفر کے دوران مزید آٹھ تارکین وطن ڈوب کر ہلاک

اس حادثے کی اطلاع ملنے کے بعد یونانی کوسٹ گارڈز نے مجموعی طور پر تقریباﹰ 40 تارکین وطن کو زندہ بچا لیا جبکہ سمندر میں تیز ہواؤں اور خراب موسمی حالات کے باوجود ممکنہ طور پر زندہ افراد کی تلاش آخری خبریں ملنے تک جاری تھی۔

یونان، تارکین وطن کے لیے یورپی یونین میں داخلے کا دروازہ

یورپی یونین کا رکن ملک یونان جغرافیائی طور پر اس بلاک کے جنوب مشرقی کنارے پر واقع ہے۔ یونان کے بحیرہ ایجیئن میں واقع متعدد جزائر ترکی سے اپنے کم فاصلے کی وجہ سے بہت سے تارکین وطن اور مہاجرین کے لیے یورپی یونین میں داخلے کا ترجیحی گیٹ وے سمجھے جاتے ہیں۔

ہزاروں تارکین وطن کی تیر کر مراکش سے اسپین پہنچنے کی کوشش

یونانی کوسٹ گارڈز کو جزیرے ساموس کے قریب کھلے سمندر سے جو آٹھ لاشیں ملیں، ان میں سے دو خواتین کی تھیں اور باقی چھ نابالغ بچوں کیتصویر: Michael Svarnias/AP Photo/picture alliance

انتہائی خطرناک اور غیر قانونی سمندری سفر کے بعد یونان کے ان جزائر تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن، مہاجرین اور پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کا تعلق زیادہ تر مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیائی کے مختلف ممالک سے ہوتا ہے۔

اٹلی: مہاجرین کی کشتیاں غرقاب، گیارہ ہلاک، درجنوں لاپتہ

دو ہزار پندرہ اور دو ہزار سولہ کے دوران اس راستے سے ترکی سے اپنا سفر شروع کرنے والے ایک ملین سے زائد تارکین وطن یونان کے مشرقی جزائر تک پہنچے تھے۔ ان میں سے بہت سے راستے میں کشتیان الٹ جانے کی وجہ سے سمندر میں ڈوب بھی گئے تھے۔

اس سال اب تک یونان پہنچنے والے ایسے تارکین وطن کی تعداد تقریباﹰ 54 ہزار ہو چکی ہے، جو جنوبی یورپ میں اٹلی کے بعد کسی بھی ملک میں گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران پہنچنے والے تارکین وطن کی دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔

م م / ش ر (روئٹرز، اے ایف پی)

مہاجرین سے بھری ڈوبنے والی کشتی میں سوار پاکستانی کی اہلیہ

01:47

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں