مصنوعی سیارے سے لی گئی تصاویر کے مطابق بحیرہ جنوبی چین میں بڑے پیمانے پر ہوئی بحریہ کی مشقوں میں چین کے طیارہ بردار بحری جہاز نے بھی حصہ لیا ہے۔ ان مشقوں میں چالیس مزید بحری جہاز بھی شامل تھے۔
اشتہار
چین کی وزارت دفاع نے اس بات کی تصدیق سے انکار کیا ہے کہ لیاؤننگ نامی اس طیارہ بردار کیرئیر نے بحری مشقوں میں حصہ لیا تھا تاہم عسکری ماہرین کہتے ہیں کہ یہ بحری جہاز دیگر بحری جہازوں کے ہمراہ بالکل واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ مشقیں چینی صوبے ہنیان کے جزیرے پر رواں ہفتے ہی منعقد کی گئی تھیں۔
سنگا پور کی ننیانگ ٹیکنیکل یونیورسٹی سے وابستہ عسکری ماہر جیمز چار نے اے ایف پی کو بتایا کہ بحری پریڈ کا آغاز چھ سب میرینوں اور دو جے پندرہ فائٹر جیٹ طیاروں کی آمد سے ہوا۔ چار نے مزیدکہا کہ یہ ترتیب عام جنگی صورت حال میں استعمال نہیں کی جاتی اور یہ کہ انہیں تعجب نہیں ہو گا اگر ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہو گا۔
چین کی جانب سے عسکری طاقت کا یہ مظاہرہ تائیوان کی جانب سے اس بیان کے کئی روز بعد کیا گیا، جس میں اُس نے کہا تھا کہ طیارہ بردار بحری جہاز’ لیاؤننگ‘ اور دیگر بحری جہاز بیس مارچ کو آبنائے تائیوان سے گزرے ہیں۔ یہ وہی تاریخ جب چینی صدر شی جن پنگ نے چین کو تقسیم کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف خبردار کیا تھا۔
بیجنگ ایک عرصے سے بحیرہ جنوبی چین پر اپنی ملکیت کا دعوی کرتا ہے۔ دوسری جانب برونائی، ملائیشیا، فلپائن، تائیوان اور ویت نام کے بھی اس سمندر کی ملکیت کے دعوے دار ہیں جبکہ امریکی جنگی جہاز چین کے زیر قبضہ جزائر کے قریب ’جہاز رانی کی آزادی‘ کو کنٹرول کرتے رہتے ہیں۔
چینی وزارت دفاع کے ترجمان رین گوکیناگ نے جمعرات کے روز جنوبی بحیرہ چین میں جنگیں جیتنے کے لیے عسکری اہلیت بڑھانے کے لیے عمومی نوعیت کی ایک نیوی ڈرل ہونے کی تصدیق کی تھی۔ لیاؤننگ سوویت دور کا بحری جہاز ہے جسے یوکرائن سے خریدا گیا تھا۔
چین کو واپسی کے بعد کی ہانگ کانگ کی بیس سالہ تاریخ
ایک سو چھپن سال تک برطانیہ کی حکمرانی میں رہنے کے بعد ہانگ کانگ کو بیس سال قبل چین کو واپس سونپ دیا گیا تھا۔ ان دو عشروں کے دوران اس علاقے کی تاریخ میں مین لینڈ چین اور سارس کی وبا کے خلاف بے شمار احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن انیس سو ستانوے، تاریخی لمحہ
برطانیہ سے عوامی جمہوریہ چین کو ہانگ کانگ کی واپسی یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو عمل میں آئی۔ اس کے بعد سے ہانگ کانگ میں’ایک ملک دو نظام‘ رائج ہے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
سن انیس سو نناوے، خاندان ایک نہیں ہو سکتے
ہانگ کانگ کی سرحد پر تقسیم ہو جانے والے خاندانوں کو امید تھی کہ چین حوالگی کے بعد وہ اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے مل سکیں گے۔ تاہم اس ضمن میں یومیہ 150 چینیوں کا ہانگ کانگ میں بسنے کا کوٹا مختص کیا گیا اور بہت سے لوگ مایوس رہ گئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار دو، ریزہ ریزہ امیدیں
رہائش کا یہ مسئلہ سن 2002 میں دوبارہ اُسوقت بڑھا جب ہانگ کانگ نے چار ہزار کے قریب اُن چینیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا جو وہاں رہنے کی قانونی لڑائی ہار گئے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والے ان پریشان حال خاندانوں کو اُس پارک سے نکال دیا گیا تھا جہاں وہ احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Cheung
سارس کی عالمی وبا کی شروعات
سن دو ہزار تین میں انتہائی متعدی مرض سارس ہانگ کانگ سے پھیلا تھا۔ اس وائرس سے فلو جیسی کیفیت والی بیماری کو عالمی ادارہ صحت نے ’وبا‘ قرار دے دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں اس بیماری سے قریب تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار چار، جمہوریت کے حق میں ریلی
چین کی ’ایک ملک دو نظام‘ کی پالیسی سے وہاں صورت حال اکثر کشیدہ رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چین حوالگی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر ہزار ہا افراد نے ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ افراد سیاسی اصلاحات، جمہوریت اور ہانگ کانگ کے آئندہ لیڈر کے چناؤ کے لیے براہ راست انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار آٹھ، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں
ہانگ کانگ میں جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب گھروں کے کرائے بھی زیادہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد کو نام نہاد’ کیج ہوم یا پنجرہ گھر‘ میں رہنا پڑتا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ تک ایسا طرز رہائش ہانگ کانگ میں غیر معمولی بات نہیں تھی۔
تصویر: Reuters/V. Fraile
سن دو ہزار نو، تیانامن اسکوائر کی یاد میں
تیانامن اسکوائر میں سفاکانہ حکومتی کریک ڈاؤن کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ہانگ کانگ کے وکٹوریہ پارک میں بڑی تعداد میں ہانگ کانگ کے باشندوں نے جمع ہو کر موم بتیاں روشن کیں۔
تصویر: Reuters/A. Tam
سن دو ہزار چودہ، مزید خود مختاری کا مطالبہ
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں مزید خودمختاری کے لیے کیے جانے والےمظاہروں نے دو ماہ تک ہانگ کانگ کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان مظاہروں کو ’امبریلا ریوولوشَن‘ کا نام دیا گیا کیونکہ مظاہرین پولیس کی جانب سے مرچ کے اسپرے اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے چھتریوں کا استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
سن دو ہزار پندرہ، جب کھیل میں سیاسی رنگ آیا
’امبریلا ریوولوشن‘ کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں چینی فٹ بال ٹیم نے 17 نومبر سن دو ہزار پندرہ کو ایک فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ ہانگ کانگ کے خلاف کھیلا۔ تاہم ہانگ کانگ میں ان کا دوستانہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ جب چین کا قومی ترانا بجایا جا رہا تھا تو تماش بینوں نے ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا،’’ ہانگ کانگ چین نہیں ہے‘‘ یہ میچ صفر، صفر پر ختم ہو گیا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار سولہ، تشدد کا ایک اور دور
سن دو ہزار سولہ میں ہانگ کانگ کی پولیس کی سخت گیر حکمت عملی ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ ہانگ کانگ حکام نے پڑوسی ملک کے غیر قانونی خوانچہ فروشوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ انتظامیہ نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بھیجا جس نے اُن پر ڈنڈوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والا یہ تصادم کم خونریز نہیں تھا۔