بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2000 سے اب تک تینتیس ہزار سے زائد تارکین وطن یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم کی لہروں کی نذر ہوئے۔
اشتہار
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ سترہ برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں یورپ کا رُخ کرنے والے تینتیس ہزار سے زائد انسان بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک یا گم شدہ ہو گئے۔
آئی او ایم کے ترجمان ہورہے گالیندو نے جنیوا میں نیوز بریفنگ کے دوران تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ’’یہ اعداد و شمار رواں برس جون کے آخر تک کے ہیں اور یہ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ بحیرہ روم کی یورپی سرحد دنیا کی سب سے خطرناک اور جان لیوا سرحد ہے۔‘‘
ترکی سے رومانیہ ، مہاجرت کا ایک خطرناک راستہ
01:44
یہ رپورٹ یورپین یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ پروفیسر فیلپ فارگ نے تیار کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بحیرہ روم میں ’مختصر اور کم خطرناک راستوں کو بند کرنے کے نتیجے میں (تارکین وطن) طویل اور خطرناک سمندری راستے اختیار کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں بحیرہ روم میں ہلاکتوں میں اضافہ ہونے کا خد شہ ہے‘۔
گزشتہ دو برسوں کے دوران ریکارڈ تعداد میں ایک ملین سے بھی زائد انسان بحیرہ روم کے خطرناک سمندری راستوں ہی کے ذریعے یورپ پہنچے تھے۔ زیادہ تر تارکین وطن تُرک ساحلوں سے بحیرہ ایجیئن کے سمندری راستوں کے ذریعے یونانی جزیروں پر پہنچے تھے۔ ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کے بعد یورپ پہنچنے کا یہ راستہ عملی طور پر بند ہو گیا تھا جس کے بعد لیبیا کے ساحلوں سے اٹلی پہنچنے کے رجحان میں اضافہ نوٹ کیا گیا تھا۔
اس برس بھی ایک لاکھ اکسٹھ ہزار سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے ہیں جن میں سے 75 فیصد اٹلی جب کہ باقی پچیس فیصد نے یونان، اسپین اور قبرص کا رخ کیا۔ آئی او ایم کے مطابق اس برس بھی تین ہزار سے زائد انسان بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک یا گم شدہ ہو گئے۔
پروفیسر فیلپ فراگ کا تاہم کہنا ہے کہ بحیرہ روم میں ہلاک ہونے والوں کی حقیقی تعداد ممکنہ طور پر رپورٹ میں جمع کردہ اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی ادارہ مہاجرت تارکین وطن کی رضاکارانہ وطن واپسی اور اپنے ملک میں دوبارہ زندگی شروع کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے رواں برس AVRR نامی اس منصوبے سے کن ممالک کے شہری زیادہ مستفید ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar
۱۔ البانیا
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے رضاکارانہ وطن واپسی اور آباد کاری کے منصوبے کے تحت اس برس کی پہلی ششماہی میں البانیا کے 4421 شہری وطن واپس لوٹے۔ سن 2016 میں اس منصوبے سے مستفید ہونے والے البانیا کے شہریوں کی تعداد اٹھارہ ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: DW/A. Muka
۲۔ عراق
شورش زدہ ملک عراق کے شہریوں میں رضاکارانہ وطن واپسی کا رجحان گزشتہ برس بھی موجود تھا جب قریب تیرہ ہزار عراقی شہری آئی او ایم کے اس منصوبے کے تحت واپس عراق چلے گئے تھے۔ اس برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران چار ہزار عراقی اس منصوبے سے مستفید ہوئے۔
تصویر: DW/B. Svensson
۳۔ ایتھوپیا
افریقی ملک ایتھوپیا کے تئیس سو شہری آئی او ایم کے رضاکارانہ وطن واپسی کے اس پروگرام میں حصہ لے کر اپنے وطن واپس گئے۔ گزشتہ پورے برس کے دوران اس منصوبے کے تحت سات ہزار ایتھوپین تارکین وطن اپنے ملک واپس لوٹے تھے۔
تصویر: IOM Ethiopia
۴۔ افغانستان
گزشتہ برس آئی او ایم کے اس منصوبے میں حصہ لینے والے افغان شہریوں کی تعداد سات ہزار سے بھی زائد رہی تھی۔ تاہم اس برس اس رجحان میں کچھ کمی دیکھی جا رہی ہے۔ سن 2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران قریب اکیس سو افغان شہری رضاکارانہ طور پر وطن لوٹ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar
۵۔ سربیا
یورپی ملک سربیا کے مختلف ملکوں میں موجود تارکین وطن میں سے قریب سترہ سو افراد بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے تعاون سے واپس اپنے ملک لوٹے۔ گزشتہ برس ایسے سرب باشندوں کی تعداد قریب سات ہزار رہی تھی۔
تصویر: privat
۶۔ مقدونیا
مشرقی یورپ ہی کے ایک اور ملک مقدونیا کے پانچ ہزار شہریوں نے گزشتہ برس اس منصوبے سے استفادہ کیا تھا تاہم رواں برس کی پہلی ششماہی میں واپس وطن لوٹنے والے مقدونیا کے شہریوں کی تعداد پندرہ سو رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۷۔ پاکستان
پاکستانی تارکین وطن میں رضاکارانہ وطن واپسی کے رجحان میں اس برس اضافہ ہوا ہے۔ سن 2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران قریب پندرہ سو پاکستانی رضاکارانہ وطن واپسی کے اس منصوبے سے مستفید ہوئے جب کہ گزشتہ پورے برس میں ایسے پاکستانیوں کی تعداد 1278 رہی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar
۸۔ سینیگال
مغربی افریقہ کے ملک سینگال سے تعلق رکھنے والے قریب ساڑھے تیرہ سو تارکین وطن بین الاقوامی ادارہ برائےمہاجرت کے شروع کردہ اس منصوبے کے تحت اس برس کی پہلی ششماہی کے دوران واپس اپنے وطن لوٹ گئے تھے۔
تصویر: Reuters/L. Gnago
۹۔ یوکرائن
یورپی ملک یوکرائن کے ہمسایہ ملک روس سے کشیدہ تعلقات کے باعث یوکرائنی باشندوں میں یورپ کی جانب مہاجرت کا رجحان نوٹ کیا گیا تھا۔ تاہم اس برس کی پہلی ششماہی کے دوران قریب تیرہ سو یوکرائنی رضاکارانہ طور پر واپس یوکرائن چلے گئے۔
تصویر: DW
۱۰۔ روس
آئی او ایم کے شروع کردہ رضاکارانہ وطن واپسی اور آبادکاری کے اس منصوبے سے مستفید ہونے والے روسی تارکین وطن کی تعداد اس برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران گیارہ سو سے زائد رہی۔