1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحیرہ روم مسلسل مہاجرین کو نگل رہا ہے

4 نومبر 2019

بحیرہ روم میں  کئی امدادی تنظیموں کے بحری جہاز مہاجرین کو بچانے کے لیے گشت کرتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے بحیرہ روم کو مہاجرین کے لیے سب سے خطرناک جگہ قرار دیا ہے۔

Symbolbild Rettung von Migranten vor der Küste Libyens
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Bourdin

اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین ( یو این ایچ سی آر) کے بحیرہ روم کے لیے خصوصی نمائندے ونسینٹ کوشیٹیل نے کہا کہ بحیرہ روم پار کر کے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کی تقریباً نصف تعداد موجوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ ایک جرمن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا،''ہمارا خیال ہے کہ سمندر میں ہلاک ہونے والے تارکین وطن سے دوگنی تعداد ان لوگوں کی جو  بحیرہ روم تک پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں ہی ہلاک ہو جاتے ہیں۔‘‘

ان کے بقول ان کی اصل تعداد تو بہت زیادہ بھی ہو سکتی ہے اور اس بارے میں اعداد و شمار پیش بھی نہیں کیے جا سکتے۔ انہوں نے اس صورتحال کو ایک بڑے المیے سے تعبیر کیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/Sea-Eye/F. Heinz

بحیرہ روم یورپ پہنچنے کے خواہش مند تارکین وطن کے لیے بدستور ایک خطرناک بحری راستہ ہے۔ اس تناظر میں یو این ایچ سی آر نے خبردار کیا ہے کہ بحیرہ روم تک پہنچنے کے لیے براعظم افریقہ کے زمینی راستے زیادہ جان لیوا ہیں۔

مہاجرین کی بین لاقوامی تنظیم ( آئی ایک او) نے 2018ء میں نشاندہی کی تھی کہ ٹریفک حادثے، جسم میں پانی کی کمی، قے، تشدد، بھوک اور دیگر بیماریاں زمینی راستے پر سفر کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی اہم ترین وجوہات ہیں۔

انیس ہزار ہلاکتیں

اسی برس اکتوبر میں یو این ایچ سی آر نے ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس میں واضح کیا گیا تھا کہ صرف ایک ماہ میں بحیرہ روم پار کرنے کی کوشش کے دوران ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اس ادارے نے مزید بتایا کہ 2018ء کے دوران سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد 2,277 ہے۔

دوسری جانب آئی ایم او نے بتایا ہے کہ 2014ء سے رواں برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم میں مرنے والوں کی تعداد انیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ تاہم ان دونوں اداروں کے مطابق بہت سے واقعات کے بارے میں علم نہ ہونے کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔

ایک بے نام ایلان کردی

02:18

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں