بحیرہ روم میں کئی امدادی تنظیموں کے بحری جہاز مہاجرین کو بچانے کے لیے گشت کرتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے بحیرہ روم کو مہاجرین کے لیے سب سے خطرناک جگہ قرار دیا ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین ( یو این ایچ سی آر) کے بحیرہ روم کے لیے خصوصی نمائندے ونسینٹ کوشیٹیل نے کہا کہ بحیرہ روم پار کر کے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کی تقریباً نصف تعداد موجوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ ایک جرمن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا،''ہمارا خیال ہے کہ سمندر میں ہلاک ہونے والے تارکین وطن سے دوگنی تعداد ان لوگوں کی جو بحیرہ روم تک پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں ہی ہلاک ہو جاتے ہیں۔‘‘
ان کے بقول ان کی اصل تعداد تو بہت زیادہ بھی ہو سکتی ہے اور اس بارے میں اعداد و شمار پیش بھی نہیں کیے جا سکتے۔ انہوں نے اس صورتحال کو ایک بڑے المیے سے تعبیر کیا ہے۔
بحیرہ روم یورپ پہنچنے کے خواہش مند تارکین وطن کے لیے بدستور ایک خطرناک بحری راستہ ہے۔ اس تناظر میں یو این ایچ سی آر نے خبردار کیا ہے کہ بحیرہ روم تک پہنچنے کے لیے براعظم افریقہ کے زمینی راستے زیادہ جان لیوا ہیں۔
مہاجرین کی بین لاقوامی تنظیم ( آئی ایک او) نے 2018ء میں نشاندہی کی تھی کہ ٹریفک حادثے، جسم میں پانی کی کمی، قے، تشدد، بھوک اور دیگر بیماریاں زمینی راستے پر سفر کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی اہم ترین وجوہات ہیں۔
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
10 تصاویر1 | 10
انیس ہزار ہلاکتیں
اسی برس اکتوبر میں یو این ایچ سی آر نے ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس میں واضح کیا گیا تھا کہ صرف ایک ماہ میں بحیرہ روم پار کرنے کی کوشش کے دوران ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اس ادارے نے مزید بتایا کہ 2018ء کے دوران سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد 2,277 ہے۔
دوسری جانب آئی ایم او نے بتایا ہے کہ 2014ء سے رواں برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم میں مرنے والوں کی تعداد انیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ تاہم ان دونوں اداروں کے مطابق بہت سے واقعات کے بارے میں علم نہ ہونے کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔