بحیرہ روم میں رواں ماہ سو سے زائد مہاجرین ڈوب کر ہلاک ہوئے
11 ستمبر 2018
امدادی تنظیم ایم ایس ایف نے کہا ہے کہ ستمبر کے اوائل میں گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی کشتیوں کے ڈوبنے سے ایک سو سے زائد مہاجرین ہلاک ہوئے۔ یہ بات ایم ایس ایف نے زندہ بچ جانے والے مہاجرین کے حوالے سے بتائی ہے۔
اشتہار
فرانسیسی تنظیم ایم ایس ایف یا ’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے اپنی ویب سائٹ پر شائع کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ یکم ستمبر کی صبح لیبیا کے ساحل سے دو چھوٹی کشتیاں جن پر درجنوں افراد سوار تھے، روانہ ہوئی تھیں۔ ان میں سوار زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق افریقی ممالک سے تھا۔
زندہ بچ جانے والے ایک مہاجر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ایم ایس ایف نے لکھا ہے کہ دونوں میں ایک کشتی کا انجن کچھ دیر چلنے کے بعد بند ہو گیا تھا جبکہ دوسری ربڑ کی کشتی سے ہوا نکل گئی تھی۔ چند تارکین وطن ان کشتیوں کے تباہ شدہ حصے کو پکڑ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو سکے۔
بچ جانے والے ایک مہاجر نے ’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کو بتایا،’’ یورپی امدادی کارکن ایئر کرافٹ لے کر آئے اور امدادی کارروائی شروع کی تاہم مہاجرین گھنٹوں تک سمندر سے نہ نکالے جا سکے۔‘‘
ایم ایس ایف نے زندہ بچ جانے والے ایک نا معلوم تارک وطن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا،’’ہماری کشتی پر صرف پچپن مہاجرین ہی زندہ بچے جن میں خاندان اور بچے بھی شامل تھے۔ اگر امداد جلدی آ جاتی تو باقی کو بھی بچایا جا سکتا تھا۔‘‘
ڈوبنے والی کشتیوں پر سوڈان، مالی، کیمرون اور نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین سوار تھے۔
ایم ایس ایف نے اپنی ویب سائٹ پر یہ بھی لکھا ہے کہ بچ جانے والے متعدد افراد کو دو ستمبر کو لیبیا کی کوسٹ گارڈ نے خمص کی بندرگاہ پر منتقل کیا تھا۔
ایجنسی کے مطابق ان مہاجرین کو لیبیا میں مزید مظالم کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ص ح / ع س/ نیوز ایجنسی
لامپے ڈوسا کے مہاجرین کی یاد میں
لامپے ڈوسا بحیرہ روم میں وہ جزیرہ ہے جہاں یورپ جانے کے خواہشمند افراد پہنچتے ہیں۔ سینیگال کے محمدو با پرتگال میں رہتے ہیں اور لامپے ڈوسا جا چکے ہیں۔ ان کی تصاویر میں مہاجرین کے حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔
تصویر: Mamadou Ba
لامپے ڈوسا، یورپ کا دروازہ
اطالوی جزیرہ لامپے ڈوسا، یورپ پہنچنے کے خواہشمند اکثر افراد کے لیے یورپ کے دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ سینیگال سے تعلق رکھنے والے محمدو با انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں اور وہ ’ایس او ایس راسِسمو‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی تصاویر میں لامپے ڈوسا یا اس کے قریبی سمندر میں مہاجرین کے حالات دکھائے گئے ہیں۔
تصویر: Mamadou Ba
بحری جہازوں کا قبرستان
لامپے ڈوسا کو جہازوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں موجود بہت سی کشتیوں کے ذریعے مہاجرین اس جزیرے تک پہنچے ہیں۔ اس جزیرے تک پہنچنے کی کوشش میں اب تک ہزاروں افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
تصویر: Mamadou Ba
بہتر زندگی کی تلاش میں موت کا شکار
لامپے ڈوسا کو اب ہزاروں مہاجرین کا قبرستان بھی سمجھا جاتا ہے۔ محمدو با کے مطابق یہ لوگ صرف اس لیے موت کے منہ میں چلے گئے کیونکہ یہ بہتر زندگی جینا چاہتے تھے۔ ایسے مہاجرین کی زیادہ تر تعداد اریٹیریا اور صومالیہ سے تعلق رکھتی ہے۔
تصویر: Mamadou Ba
مرنے والوں کے نشانات
ایسے لوگ جو یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران راستے میں ہی ہلاک ہو جاتے ہیں ان کے بارے میں بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہو پاتا ہے۔ ڈوبنے والے جہازوں سے حاصل کیے جانے والے یہ کپڑے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مرنے والوں میں سے بعض کس طرح کے لباس میں ہو ں گے۔
تصویر: Mamadou Ba
انسانوں کی نشانیاں
لامپے ڈوسا پر ایک چھوٹا سا میوزیم بھی موجود ہے جہاں تباہ ہونے والے جہازوں کے مسافروں کی چیزیں رکھی گئی ہیں۔ ان میں پاسپورٹ اور ذاتی استعمال کی چیزیں بھی شامل ہیں۔ محمدو با کے مطابق ان چیزوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مہاجرین سادہ سے لوگ تھے اور سادہ سے خواب رکھتے تھے۔
تصویر: Mamadou Ba
روزانہ کا معمول
مہاجرین اپنی عادات اور ثقافت بھی اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ مثلاﹰ اس جزیرے پر پہنچنے والے یہ برتن۔ تاہم ان کے بارے میں یہ معلوم نہیں کہ یہ بحیرہ روم کو پار کرتے ہوئے موت کا شکار ہونے والے افراد سے تعلق رکھتے ہیں یا زندہ سلامت لامپے ڈوسا تک پہنچنے والوں سے۔
تصویر: Mamadou Ba
گمشدہ زندگی کی یاد
نو کلومیٹر طویل یہ جزیرہ مہاجرین کی یاد تازہ کرتا ہے۔ لامپے ڈوسا اطالوی جزیرے سسلی سے 205 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ تیونس کے دارالحکومت سے محض 130 کلومیٹر کے فاصلے پر۔ اسی باعث یورپ میں داخلے کے لیے یہ جزیرہ آئیڈیل سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Mamadou Ba
یورپ کا قلعہ
دوسری عالمی جنگ کے دوران تعمیر ہونے والا یہ بَنکر اب یورپی یونین کی علامت کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ یورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے یہ مطالبات سامنے آ رہے ہیں کہ تارکین وطن سے متعلق پالیسی میں تبدیلی لائی جائے۔
تصویر: Mamadou Ba
لامپے ڈوسا، امیدوں کا سہارا
بحیرہ روم کا یہ جزیرہ سِسلی اور شمالی افریقہ کے درمیان موجود ہے۔ اس جزیرے پر پہنچنے والے لوگ بہتر مستقبل کی امیدیں لگائے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یورپی یونین کی طرف سے مہاجرین سے متعلق پالیسی میں تبدیلی مہاجرین کی اس تعداد میں کمی کا باعث بنے گی۔