بحیرہ روم میں سال کا بدترین المیہ: ڈیڑھ سو مہاجرین ڈوب گئے
26 جولائی 2019
اقوام متحدہ نے بحیرہ روم میں تقریباﹰ تین سو مہاجرین سے بھری دو کشتیوں کے کھلے سمندر میں الٹ جانے کو اس سال کا سب سے بڑا المیہ قرار دیا ہے۔ خدشہ ہے کہ پناہ کے متلاشی ان تارکین وطن میں سے ڈیڑھ سو تک سمندر میں ڈوب گئے ہیں۔
اشتہار
نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ لیبیا کے کوسٹ گارڈز اور اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کے بیانات کے مطابق یہ المناک اور بہت ہلاک خیز واقعہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس سے 120 کلومیٹر یا 75 میل کے فاصلے پر کھلے سمندر میں جمعرات 25 جولائی کو پیش آیا۔
بپھری ہوئی سمندری لہروں کی وجہ سے الٹ جانے والی ان دو کشتیوں میں شمالی افریقہ سے بحری راستے کے ذریعے یورپ تک پہنچنے کے خواہش مند کل قریب 300 مہاجرین سوار تھے۔ ان میں سے تقریباﹰ 150 تک تارکین وطن تاحال لاپتہ ہیں، جن کے بارے میں حکام کو خدشہ ہے کہ وہ ڈوب گئے ہیں۔ باقی ماندہ تقریباﹰ ڈیڑھ سو تارکین وطن کو کھلے سمندر میں ماہی گیری کرنے والی مقامی کشتیوں نے بچایا اور اب انہیں واپس لیبیا میں ایسے مہاجرین کے لیے بنائے گئے حراستی مراکز میں پہنچایا جا چکا ہے۔
اس بارے میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان چارلی یاکسلی نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا، ''147 مہاجرین کو بچا لیا گیا۔ ہمارا اندازہ ہے کہ 150 تک تارکین وطن ایسے ہیں، جو تاحال لاپتہ ہیں اور خدشہ ہے کہ وہ سمندر میں ڈوب گئے ہیں۔‘‘
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
6 تصاویر1 | 6
'بحیرہ روم میں سال رواں کا سب سے بڑا المیہ‘
اسی دوران اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فیلیپو گرانڈی نے کہا ہے، ''اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین اور تارکین وطن کے ہلاک ہونے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ المیہ بحیرہ روم میں سال رواں کے دوران پیش آنے والا سب سے ہلاکت خیز واقعہ ثابت ہوا ہے۔‘‘ گرانڈی نے یورپی یونین کے رکن ممالک سے یہ درخواست بھی کی کہ وہ بحیرہ روم کے پانیوں میں شمالی افریقہ سے یورپ پہنچنے کے خواہش مند لیکن انتہائی غیر محفوظ اور خستہ حال کشتیوں میں پرخطر سفر کرنے والے مہاجرین کو بچانے کے لیے اپنے امدادی مشن دوبارہ شروع کریں۔
قبل ازیں لیبیا کے ساحلی محافظوں نے رواں ہفتے کے آغاز پر بھی 30 ایسے مہاجرین کو حراست میں لے لیا تھا، جو سمندری راستے سے یوپ پہنچنے کی کوشش میں تھے۔ ان تارکین وطن کو بعد میں لیبیا میں تاجورہ کے حراستی مرکز میں پہنچا دیا گیا تھا۔ رواں ماہ کے اوائل میں اس حراستی مرکز پر کیے گئے ایک فضائی حملے میں بھی 50 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
اس مرکز میں اس وقت بھی 200 سے زائد تارکین وطن کو رکھا جا رہا ہے۔ لیکن مزید پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ یہ مرکز خانہ جنگی کے شکار ملک لیبیا میں ایک ایسی جگہ پر واقع ہے، جہاں سے متحارب جنگی فریقین کے مابین ہونے والی شدید زمینی اور فضائی لڑائی بھی زیادہ دور نہیں ہے۔
م م / ع ب / روئٹرز، اے پی
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔