بحیرہ روم میں مہاجرین کا المیہ: ذمہ داری کس پر؟
26 اپریل 2015افریقی ملک تنزانیہ سے تعلق رکھنے والی اور ڈی ڈبلیو کے شعبہ انگریزی سے منسلک Asumpta Lattus اپنے تبصرے میں لکھتی ہیں کہ جب بھی وہ کہیں خبروں میں بحیرہ روم یا لامپے ڈوسا جیسے الفاظ سنتی ہیں تو وہ کانپنے لگ جاتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ شمالی افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والوں کی کسی کشتی کو اگر کوئی حادثہ پیش آیا ہے تو اس میں یقینی طور پر ان کے افریقی ساتھی بھی مارے گئے ہوں گے۔ یہ کیفیت انہیں اداس کر دیتی ہے۔
آسمپٹا لاٹُس لکھتی ہیں کہ شاید لوگ سوچتے ہوں گے کہ اس طرح حادثات کے بارے میں سن کر وہ بطور ایک افریقی، یورپی ممالک پر غصہ کرتی ہوں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ افریقی ممالک کی حکومتوں پر زیادہ نالاں ہیں کیونکہ وہ اس طرح کے المناک واقعات کو روکنے کے لیے کچھ زیادہ اقدامات نہیں کر رہیں۔
لاٹُس کہتی ہیں کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ باالخصوص یورپ میں شاید بہت کم لوگ ایسے ہوں گے، جو یہ توقع رکھتے ہیں کہ اس بحرانی کیفیت کے حل کے لیے افریقی حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ خاتون تبصرہ نگار کے خیال میں افریقی باشندوں کو یورپ کی طرف رخ کرنے کے بجائے انہیں دستیاب مواقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
افریقہ کےمسائل اور وہاں کی سستی مزدوری کی وجہ سے یورپی ممالک بہت فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ ماہی گیروں نے افریقی سمندری پانیوں سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ ناریل، پھل، سبزیاں اور پھول یہ سب کچھ براعظم افریقہ میں اگائے جاتے ہیں اور انہیں یورپ اور دیگر ممالک برآمد کر دیا جاتا ہے۔ لاٹس کے مطابق ان برآمدات کے ساتھ کوئی بھی ملک اپنے یہاں افریقی لوگوں کو خوش آمدید نہیں کہتا ہے۔
ڈی ڈبلیو کی تبصرہ نگار کا مزید کہنا ہے کہ 2013ء میں یورپ نے مہاجرت کے بحران پر غور کرنا شروع کیا تھا لیکن افریقی ممالک میں اس حوالے سے ابھی تک صرف ایک ہی میٹنگ کی گئی ہے۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس میٹنگ میں دی جانے والی تجاویز میں کسی ایک پر بھی کبھی غور کیا گیا ہے یا نہیں۔ لاٹس کا اصرار ہے کہ افریقی حکومتوں کو مہاجرت کے اس بحران کو ایک حقیقی مسئلہ سمجھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ساری صورتحال کے تناظر میں لاٹُس کہتی ہیں کہ اُن سمیت کئی دوسرے افریقیوں کے لیے یہ شرمساری کا موقع ہے کیونکہ ان کے براعظم کی حکومتیں مہاجرت کے اس اہم مسئلے کو مناسب توجہ نہیں دے رہی ہیں۔ ان کے خیال میں افریقی یونین کے اجلاسوں اور دیگر علاقائی کانفرنسوں میں اس معاملے پر جامع بحث کی ضرورت ہے۔ تبصرہ نگار کے مطابق سب سے بڑا مسئلہ افریقی عوام کی سوچ کو بدلنا ہے۔
لاٹُس بتاتی ہیں کہ وہ یورپ میں ایسے بہت سے افریقی لوگوں سے ملی ہیں، جو روزانہ تین ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں۔ یہ لوگ غیر قانونی طور پر اشیاء فروخت کرتے ہیں اور مشکل حالات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ لاٹُس نے اپنے براعظم سے تعلق رکھنے والوں سے مزید کہتی ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے ملکوں کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کی کوشش کریں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کا استحصال بھی ہوتا ہے اور کچھ خواتین جسم فروشی بھی کرتی ہیں۔
لاٹُس کے مطابق یورپ میں اب بھی بہت سے افریقی لوگوں کے ساتھ تعصب برتا جاتا ہے۔ وہ اپنے ماضی کی مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب وہ اٹلی کی ایک یونیوسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں تو مرد آ کر میرے کان میں کہتے تھے، ’ایک رات کے لیے میری قیمت کیا ہے‘۔ وہ اپنے افریقی ساتھیوں سے صرف یہ کہنا چاہتی ہے کہ یہ سوچ ختم کرنا نہایت اہم ہے کہ یورپ پہنچنے سے ان کے تمام مسائل ختم ہو جائیں گے۔