1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتعالمی

بحیرہ روم میں کشتی خراب، بھوک و پیاس سے ساٹھ افراد ہلاک

15 مارچ 2024

لیبیا سے بحیرہ روم کے راستے یورپ کے لیے روانہ ہونے والی کشتی کا راستے میں انجن خراب ہو گیا، جس میں سوار کم سے کم ساٹھ تارکین وطن ہلاک ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق ان کی موت پینے کی پانی کی کمی اور بھوک سے ہوئی۔

مہا جرین سے بھری ایک کشتی
اطالوی وزارت داخلہ کے مطابق رواں برس اب تک 5,968 تارکین وطن سمندر کے راستے سے اٹلی پہنچ چکے ہیں، جبکہ سن 2023 میں اس عرصے میں 19,937 افراد پہنچے تھےتصویر: Hasan Mrad/ZUMA Wire/IMAGO

بحیرہ روم میں تارکین وطن کی ایک کشتی میں خرابی کی وجہ سے درجنوں افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ مذکورہ کشتی سے جن پچیس افراد کو بچایا گیا ہے، ان کے بیان کے مطابق کشتی میں سوار کم سے کم 60 تارکین وطن ہلاک ہو گئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ 

تارکین وطن کے لیے سن 2023 سب سے خطرناک سال رہا، اقوام متحدہ

بحیرہ روم میں انسانی امداد کے ادارے ’ایس او ایس میڈیٹرینی‘ کے جہاز ’اوشین وائکنگ‘ نے زندہ بچ جانے والے 25 افراد کو مذکورہ کشتی سے بچایا ہے، جو کئی دنوں سے بغیر کسی مدد کے سمندر میں تیر رہی تھی۔ 

غیر قانونی مہاجرت کا ہولناک سفر، اکیڈمی ایوارڈز کی تقریب میں

اس بارے میں ہمیں مزید کیا معلوم ہے؟

بچ جانے والے افراد نے امدادی ٹیم کے ارکان کو بتایا کہ وہ کئی روز پہلے لیبیا کے ساحل زاویہ سے یورپ کی جانب روانہ ہوئے تھے۔ ان کے بقول روانگی کے تین دن بعد کشتی کا انجن خراب ہو گیا، جس کے سبب کشتی بغیر خوراک اور پانی کے بس یونہی سمندر کی سطح پر لہروں کے ساتھ بہتی رہی۔ بعض اطلاعات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کشتی کا بجلی کا سسٹم خراب ہو گيا تھا۔ 

   برطانیہ: تارکین وطن کی تعداد میں تشویشناک اضافہ، قوانین میں سختی کا فیصلہ

زندہ بچ جانے والوں کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں خواتین کے ساتھ ہی کم از کم ایک بچہ بھی شامل ہے۔ اطلاعات کے مطابق متاثرین کی موت ڈوبنے کے بجائے بھوک و پیاس کے سبب ہوئی۔

جرمنی میں شہریت سے متعلق نئے قانون کی حتمی پارلیمانی منظوری

امدادی ادارے نے کیا کہا؟

امدادی ادارے ایس او ایس میڈیٹرینی نے جمعرات کے روز بتایا کہ اس نے ایک دن قبل اطالوی کوسٹ گارڈز کے ساتھ مل کر 25 افراد کو ’’انتہائی نازک‘‘ حالت میں بچایا تھا۔ادارے کے مطابق اس کشتی سے دو بے ہوش افراد کو بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے سسلی پہنچایا گیا، تاہم بعد میں ان کی موت ہو گئی۔

اطالوی جزیرے لامپے ڈوسا پر گنجائش سے زائد تارکین وطن کی آمد، ایمرجنسی نافذ

02:38

This browser does not support the video element.

اس حوالے سے ادارے نے سوشل میڈيا ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا ، ’’بچائے جانے سے سات روز قبل یہ افراد لیبیا کے ساحلی شہر زاویہ سے  روانہ ہوئے تھے۔‘‘

تارکین وطن کے سبب جرمن آبادی میں تین لاکھ کا اضافہ

ریسکیو گروپ کے ترجمان فرانسسکو کریزو نے بتایا کہ زندہ بچ جانے والے تمام مرد ہیں، جن میں سے 12 نابالغ لڑکے بھی شامل ہیں۔ ان کا تعلق سینیگال، مالی اور گیمبیا سے ہے۔

جرمنی: دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی تارکین وطن کی ملک بدری کی منصوبہ بندی کے خلاف ملک گیر احتجاج

امدادی ادارے کا مزید کہنا تھا کہ اوشین وائکنگ کی ٹیم نے بدھ کے روز دوربین کی مدد سے اس کشتی کو دیکھا تھا اور پھر اس نے اطالوی کوسٹ گارڈز کے تعاون سے انخلاء کا آغاز کیا۔ مزید یہ کہ زندہ بچ جانے والوں حالت ٹھیک نہیں ہے اور سبھی کی ہسپتال میں طبی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔

ریسکیو جہاز پر سوار ایک ترجمان نے بتایا، ''میں ایک ایسے شخص سے ملا، جس کی بیوی اور ڈیڑھ سالہ بچہ راستے میں ہی ہلاک ہو گئے۔ بچے کی موت تو پہلے ہی دن ہو گئی تھی جبکہ ماں چوتھے دن فوت ہوئی۔ وہ سینیگال سے تھے اور لیبیا میں گزشتہ دو سال سے بھی زیادہ عرصے سے رہ رہے تھے۔‘‘

اقوام متحدہ کا سانحے پر افسوس

مہاجرت سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کا کہنا ہے کہ اس واقعے پر اسے بہت افسوس ہے۔ سوشل میڈیا ایکس پر اپنے ایک بیان میں ادارے نے کہا، ''بحری گشت کو مضبوط بنانے اور مزید ایسے سانحات کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کی سخت ضرورت ہے۔‘‘

واضح رہے کہ اٹلی سمیت یورپی یونین کی دیگر حکومتیں شمالی افریقہ سے آنے والے تارکین وطن کی تعداد کو روکنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ وہ لیبیا اور تیونس کے ساحلوں سے تارکین وطن کی روانگی سے قبل ہی روکنے میں مدد کے لیے رقم اور وسائل بھی فراہم کر رہی ہیں۔

اطالوی وزارت داخلہ کے مطابق رواں برس اب تک 5,968 تارکین وطن سمندر کے راستے سے اٹلی پہنچ چکے ہیں، جبکہ سن 2023 میں اس عرصے میں 19,937 افراد پہنچے تھے۔

ص ز/ ر ب   (اے پی، اے ایف پی)

انسانوں کو غیر قانونی طور پر یورپ پہنچانے کا کاروبار کتنا بڑا ہے

02:32

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں