1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحیرہ روم میں گیس کے تنازعہ پر یونان کو ترکی کی دھمکی

14 اگست 2020

ترکی کےصدر طیب ارودوان نے کہا ہے کہ اگر بحیرہ روم میں توانائی کے ذخائر تلاس کرنے والے اس کے بحیری بیڑے پر حملہ ہوا تو یونان کو اس کی 'بھاری قیمت' ادا کرنی پڑےگی۔

Streit um Erdgas im östlichen Mittelmeer
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/DHA/I. Laleli

ایک ایسے وقت جب مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے ذخائر کی تلاش کے حوالے سے یونان اور ترکی کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار ہیں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے یونان کو مزید کشیدگی بڑھانے پر خبردار کیا ہے۔ ترک صدر نے اپنی جماعت اے کے پی کے ارکان سے بات چیت میں کہا ہے، ''ہم نے یونان کو بتا دیا ہے کہ اگر تم نے ہمارے اروک ریز (سمندری جہاز) پر حملہ کیا تو آپ کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑیگی۔'' تاہم اردوان نے اس کی کوئی مزید تفصیل نہیں بتائی۔

ترکی نے اس ہفتے کے اوائل میں یونان کے کاسٹیلوائز جزیرے پاس مشرقی بحیرہ روم میں گیس کے ذخائر کی تلاش کے لیے اپنا بحری بیڑا بھیجا تھا جس کے ساتھ بہت سی کشتیاں بھی تھیں۔ اس کے جواب میں یونان نے اس علاقے میں فوجی لشکر سے لیس اپنا بحری بیڑا تعینات کردیا۔

یونان کی مقامی میڈیا کی اطلاعات مطابق یونان کے بحری بیڑے نے ترکی کے جہاز اروک ریز کے ساتھ چلنے والی ایک کشتی کو ٹکر ماری تھی اور ترک صدر کا بیان اسی کے رد عمل میں آیا ہے۔ لیکن یونان کے وزیر دفاع نے ترکی کے جہاز پر کسی بھی طرح کے حملے سے انکار کیا ہے۔ یونانی وزارت دفاع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ''اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔''

مشرقی بحیرہ روم میں جب سے توانائی سے پر ہائیڈرو کاربن کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں ترکی اور یونان کے درمیان اس امر پر تنازعہ جاری ہے۔ یونان اور یورپی یونین کا دعوی ہے کہ ترکی اس علاقے میں غیر قانونی طور پر کھدائی کر رہا ہے، تاہم ترکی کا کہنا ہے کہ وہ جس علاقے میں توانائی تلاش کر رہا ہے وہ اس کے اپنے اقتصادی علاقے کا حصہ ہے۔

تصویر: Reuters/Turkish Ministry of Energy

اس سے قبل طیب اردوان نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے اسی بارے میں بات کی تھی اور کہا تھا کہ ''وہ مشرقی بحیرہ روم کے تمام تنازعات کو بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رکھتے ہوئے انصاف پسندی اور بات چیت کی بنیاد پر حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔''

جرمن چانسلر نے ہی گزشتہ ماہ جولائی میں ترکی اور یونان کے درمیان بات چیت کا راستہ ہموار کیا تھا جس میں ترکی نے عارضی طور پر سمندر میں کھدائی پر روک لگانے پر اتفاق کر لیا تھا۔ لیکن جب یونان اور مصر نے اس نے علاقے میں گیس کی تلاش سے متعلق خطے میں کھدائی پر آناً فاناً ایک معاہدہ کیا تو اس ہفتے کے اوائل سے ترکی نے اپنا کام دوبارہ شروع کر دیا ہے۔اسی مسئلے پر 14 اگست جمعے کو یوروپی یونین کے وزراء خارجہ بھی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بات چیت کرنے والے ہیں۔

اس سے قبل فرانس نے بحیرہ روم میں ترکی کی جانب سے توانائی کے ذخائر کا پتہ لگانے کے خلاف نئے اقدامات کے تحت علاقے میں تعینات اپنی فوج میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ کشیدگی کے سبب ترکی کو فوری طور پر اپنی مہم روک دینی چاہیے۔

 اس سلسلے میں فرانسیسی صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ''خطے کی صورت حال پر نظر رکھنے اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے تئیں اپنے عزم کے اظہار کے لیے فرانس عارضی طور پر اپنی فوج کو تعینات کریگا۔''

یونانی وزیراعظم کائریاکوس مٹسوٹاکیس کے ساتھ بات چیت میں فرانسیسی صدر میکروں نے ترکی کی جانب سے گیس کی دریافت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تھا کہ انقرہ کو یونان اور ترکی کے درمیان پر امن بات چیت کے لیے اس عمل کو روک دینا چاہیے۔

ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں