پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق لیبیا کی سمندری حدود میں گزشتہ ہفتے غرق ہونے والی کشتی کے نتیجے میں 13 پاکستانی ہلاکتوں کی تصدیق ہو گئی ہے۔ مہاجرین کی اس کشتی میں تقریبا نوے افراد سوار تھے، جن میں زیادہ تر پاکستانی ہی تھے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے بروز جمعہ لیبیا ہوئے کشتی کے حادثے کے نتیجے میں تیرہ پاکستانی افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لیبیا کے ساحلی محافظوں نے ان لاشوں کو نکال لیا ہے اور دستاویزات کی چھان بین سے ثابت ہو گیا کہ یہ پاکستانی شہری ہی تھے۔ اس کشتی میں سوار یہ لوگ اٹلی پہنچنے کی کوشش میں تھے۔ ہفتے کے دن پاکستانی وزارت خارجہ نے اس حادثے میں گیارہ پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر
01:11
محمد فیصل کے مطابق جن تیرہ پاکستانی تارکین وطن کی لاشیں ملی ہیں، ان میں سے آٹھ کا تعلق گجرات جبکہ چار کا منڈی بہاؤالدین سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا محکمہ لیبیا کے حکام کے ساتھ رابطے میں ہے اور ایک ہفتے کے اندر اندر ان لاشوں کو پاکستان منتقل کر دیا جائے گا۔
محمد فیصل نے مزید بتایا ہے کہ ایسی خبروں کی تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا حادثے کا شکار ہونے والی اس کشتی میں زیادہ تر پاکستانی مہاجرین سوار تھے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین آئی او ایم نے بتایا ہے کہ دو جنوری کو ہونے والے اس حادثے کے نتیجے میں کم ازکم نوے افراد کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس کشتی میں نوے سے زائد مہاجرین سوار تھے، جن میں سے صرف تین ہی زندہ بچے ہیں۔
عالمی ادارہ برائے مہاجرین کی ترجمان اولیویہ ہیڈون نے بتایا ہے کہ لیبیا کے سمندری راستے یورپ جانے کی کوشش کرنے والوں میں پاکستانی شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
ہیڈون نے بتایا کہ قومیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو گزشتہ برس غیر قانونی طور پر لیبیا سے اٹلی جانے والوں میں پاکستانیوں کا نمبر تیراہوں تھا تاہم رواں برس کے پہلے ماہ کے دوران پاکستان ایسا تیسرا ملک ہے، جس کے باشندے سب سے زیادہ تعداد میں بحیرہ روم کے خطرناک راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کر چکے ہیں یا پہنچ چکے ہیں۔
ہیڈون کے مطابق پاکستانی شہریوں کی طرف سے لیبیا کے راستے غیرقانونی طور پر یورپ پہنچنے کی وجہ ابھی تک نامعلوم ہے لیکن حقائق جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مستقبل میں بھی پاکستانی باشندوں کی بڑی تعداد اس طرح یورپ پہنچنے کی کوشش کرے گی۔
آئی او ایم کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری کے مہینے میں چھ ہزار چھ سو چوبیس تارکین وطن لیبیا کے سمندری راستے کے ذریعے غیر قانونی طور پر یورپ پہنچے۔ ان معلومات کے مطابق اسی ماہ بحیرہ روم میں رونما ہونے والے متعدد حادثات کے نتیجے میں کم ازکم ڈھائی سو مہاجرین لقمہ اجل بھی بن گئے۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔