گزشتہ برس کے مقابلے میں اس سال کے پہلے تین ماہ کے دوران لیبیا سے بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اشتہار
جرمن اخبار ’ویلٹ ام زونٹاگ‘ نے جرمن وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ بحیرہ روم کے خطرناک سمندری راستے اختیار کرتے ہوئے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس کے پہلے تین ماہ کے دوران ستر فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اطالوی حکومت کے اندازوں کے مطابق اس برس کے آخر تک ڈھائی لاکھ تارکین وطن افریقی ممالک سے کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی پہنچیں گے۔ اگرچہ حالیہ عرصے کے دوران تارکین وطن کی زیادہ تر کشتیاں مصری ساحل سے روانہ ہوئیں، اس کے باوجود اب بھی قریب پچانوے فیصد مہاجرین لیبیا سے یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔
جرمن وزارت داخلہ نے اخبار کو دیے گئے اپنے ایک تحریری جواب میں یہ بھی بتایا کہ اس سال اب تک زمینی راستوں کے ذریعے جرمنی پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن سوئٹزرلینڈ کے راستے سے آئے ہیں۔ سال کے پہلے دو ماہ کے دوران قریب چودہ سو پناہ کے متلاشی افراد سوئٹزرلینڈ کے ذریعے جرمنی کی حدود میں داخل ہوئے جب کہ پچھلے سال اسی دورانیے میں یہ راستہ اختیار کرنے والے تارکین وطن کی تعداد محض چار سو رہی تھی۔
اسی رجحان کو پیش نظر رکھتے ہوئے جرمنی کی وفاقی ریاست باڈن ورٹمبرگ کے وزیر داخلہ تھوماس شٹروبل نے جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر سخت چیکنگ اور بارڈر کنٹرول کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تھوماس شٹروبل کا کہنا تھا، ’’اب تک اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر حالات قابو میں ہیں لیکن جب بھی وہاں حالات قابو سے باہر ہو گئے تو پھر جرمن سوئس سرحد پر سختی کرنا پڑے گی۔‘‘ انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ سوئٹزرلینڈ سے متصل سرحد پر اسی سال سخت بارڈر کنٹرول متعارف کرانا پڑ سکتا ہے۔
باڈن ورٹمبرگ کے وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو تارکین وطن فراڈ کے ذریعے حکومت سے ایک سے زائد مرتبہ سماجی مراعات حاصل کر رہے ہیں، ان کے خلاف فوری اور سخت اقدام کیے جائیں گے۔ شٹروبل کا کہنا تھا انہیں اس بات پر شدید غصہ ہے کہ ’جب مہاجرین کو حکومت سے مالی فوائد حاصل کرنا ہوتے ہیں تو اچانک ہی انہیں وہ ساری دستاویزات مل جاتی ہیں جن کے بارے میں وہ حکام کو پہلے بتا چکے ہوتے ہیں کہ دستاویزات راستوں ہی میں کہیں گم ہو گئی ہیں‘۔
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘