بحیرہ روم کے ذریعے اسپین پہنچنے کا انتہائی خطرناک راستہ
شمشیر حیدر اے ایف پی
9 جولائی 2017
اس برس جنوبی ہسپانوی ساحلوں پر پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد پچھلے برس کی نسبت دگنی سے بھی زائد ہو چکی ہے۔ اٹلی کی جانب سے مزید مہاجرین قبول نہ کرنے کے اعلانات کے بعد مہاجرین کی تعداد میں مزید اضافے کے خدشات ہیں۔
اشتہار
گزشتہ دو برسوں سے یورپ میں جاری مہاجرین کے بحران کے دوران تارکین وطن کی بڑی تعداد وسطی بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یونان اور اٹلی پہنچی تھی۔ گزشتہ برس یورپی یونین اور ترکی کے مابین معاہدہ طے پانے کے بعد وسطی بحیرہ روم می بحیرہ ایجیئن کے سمندری راستوں کے ذریعے یونان اور پھر مغربی یورپ پہنچنا قریب ناممکن ہو گیا تھا جس کے بعد سے زیادہ تر مہاجرین لیبیا اور دیگر شمالی افریقی ممالک سے بحیرہ روم عبور کر کے اطالوی جزیروں پر پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔
گزشتہ ہفتے روم حکومت نے بھی آخرکار یہ کہہ دیا ہے کہ اٹلی میں مزید تارکین وطن کو پناہ دینے کی گنجائش نہیں رہی۔ اٹلی مہاجرین کا بوجھ بانٹنے کے لیے یونین کے دیگر ارکان سے مدد کا خواہاں ہے، جس پر ابھی تک مثبت پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔
تربیت کے بعد مہاجرین کی ملک بدری ۔ جرمن کمپنیوں کی مشکل
03:48
اٹلی کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر ایسے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اب زیادہ تر مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے جنگ زدہ خطوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن مغربی بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے اسپین پہنچنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق سن 2017 میں اسپین کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ رواں ہفتے بدھ سے لے کر ہفتے تک آٹھ کشتیوں میں سوار تین سو اسی تارکین وطن نے بحیرہ البورن کے ذریعے اسپین پہنچنے کی کوشش کی۔
بحیرہ البورن مغربی بحیرہ روم میں مراکش اور اسپین کے درمیان واقع ہے۔ ’SOS Racisme‘ نامی سماجی تنظیم کی ہسپانوی شاخ کے ترجمان میکیل آراگواس نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم اس لیے زیادہ پریشان ہیں کیوں کہ کئی برسوں سے تارکین وطن یہ سمندری راستے اختیار نہیں کر رہے تھے۔ یہ سمندری راستے انتہائی خطرناک ہیں اور یہاں سمندری لہروں کی شدت بہت زیادہ ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے مراکش سے اسپین کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی خستہ حال کشتی سمندری لہروں کی تاب نہ لاتے ہوئے الٹ گئی تھی۔ اس کشتی میں کل باون تارکین وطن سوار تھے جن میں سے صرف تین ہی زندہ بچ پائے۔
اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی (یو این ایچ سی آر) نے اس حادثے کو ہسپانوی بحیرہ روم میں اب تک کا ’بدترین حادثہ‘ قرار دیا تھا۔
آراگواس کا کہنا تھا کہ مراکش کے ساحلی محافظ اپنی سمندری حدود کی کڑی نگرانی نہیں کر رہے اور غالبا انہوں نے سرحدی نگرانی کم کر دی ہے تاہم یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کے نگران ادارے ’فرونٹیکس‘ کا بھی کہنا ہے کہ بظاہر ایسی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق اس برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد تارکین وطن الجزائر اور مراکش کے ساحلوں سے بحیرہ روم کے مغربی راستے اختیار کرتے ہوئے ہسپانوی ساحلوں تک پہنچے ہیں۔ گزشتہ پورے سال کے دوران ان راستوں کے ذریعے آٹھ ہزار تارکین وطن اسپین پہنچے تھے۔
ہسپانوی حکومتی ذرائع کے مطابق انسانوں کے اسمگلروں نے بھی ان راستوں کے ذریعے مہاجرین کو اسپین پہنچانے کی قیمتیں گزشتہ برس کے مقابلے میں کم کر دی ہیں۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘