بحیرہ روم کے راستوں سے مہاجرین کی آمد میں تیس فیصد اضافہ
شمشیر حیدر روئٹرز
25 جون 2017
شمالی افریقی ممالک سے بحیرہ روم کے وسطی راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد میں اس برس قریب تیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ترکی سے یونان تک کے مقابلے میں یہ سمندری راستے زیادہ طویل اور خطرناک ہیں۔
اشتہار
نیوز ایجنسی روئٹرز نے جرمنی کے کثیرالاشاعت روزنامے ’بِلڈ‘ کی رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران بحیرہ روم کے وسطی راستوں کے ذریعے لیبیا اور دیگر شمالی افریقی ممالک سے اٹلی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس سال کے آغاز سے لے کر بائیس جون تک اٹلی میں بہتر ہزار نئے تارکین وطن رجسٹر کیے گئے۔ ان سمندری راستوں کا انتخاب کرنے والے پناہ گزینوں کی یہ تعداد گزشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے میں قریب اٹھائیس فیصد زیادہ ہے۔ ان تمام افراد نے اٹلی پہنچنے کے لیے وسطی بحیرہ روم کے راستوں کا انتخاب کیا، جنہیں انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے
03:00
ہر اتوار کو شائع ہونے والے اخبار ’بِلڈ اَم زَونٹاگ‘ نے سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس وقت ترکی میں 3.3 ملین مہاجرین مقیم ہیں۔ ترکی اور یورپی یونین کے مابین گزشتہ برس طے ہونے والے ایک معاہدے کے بعد ترکی سے یونان پہنچنے والے تارکین وطن اور مہاجرین کی تعداد انتہائی کم رہ گئی ہے۔
یونان میں اس برس باسٹھ ہزار سے زائد مہاجرین پہنچے، جو مغربی یورپ جانے کے راستے بند ہونے کے باعث یونان ہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ترکی اور یونان میں موجود تارکین وطن مغربی یورپ پہنچنے کے لیے متبادل راستوں کی تلاش میں ہیں۔
اسی صورت حال کے باعث شمالی افریقی ممالک پہنچ کر وسطی بحیرہ روم کے راستے اختیار کرتے ہوئے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس جرمن اخبار نے سکیورٹی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ شمالی افریقی ممالک میں چودہ لاکھ سے زائد تارکین وطن یورپ پہنچنے کی غرض سے موجود ہیں۔
انسانوں کے اسمگلر خستہ حال کشتیوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ افراد کو سوار کرا کے بحیرہ روم کے سفر پر روانہ کر دیتے ہیں، جس کے باعث اس برس مہاجرین کی ہلاکتوں میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔
ایسے ہی سمندری حادثات سے بچاؤ کے لیے یورپ کی بیرونی سرحدوں کے نگران ادارے (فرنٹیکس)، اطالوی ساحلی محافظوں اور کئی سماجی تنظیموں نے مشترکہ طور پر بحری جہازوں اور کشتیوں کی مدد سے امدادی کارروائیوں کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔
کل ہفتے کے روز بھی ہسپانوی ساحلی محافظوں نے دو سو سے زائد تارکین وطن کو سمندر میں ڈوبنے سے بچایا جب کہ رواں ہفتے کے آغاز میں بھی ایسی ہی امدادی کارروائیاں کرتے ہوئے چار سو سے زائد انسانوں کو سمندر برد ہونے سے بچا لیا گیا تھا۔
پناہ کی تلاش ميں سب کچھ داؤ پر لگا دينے والے اکثر منزل پر پہنچنے سے قبل ہی اس دنيا کو خيرباد کہہ ديتے ہيں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران کتنے مہاجرين ہلاک ہوئے، کہاں ہلاک ہوئے اور ان کا تعلق کہاں سے تھا، جانيے اس گيلری ميں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بحيرہ روم ’مہاجرين کا قبرستان‘
سال رواں ميں دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہو جانے والے مہاجرين کی تعداد 1,319 ہے۔ سب سے زيادہ ہلاکتيں بحيرہ روم ميں ہوئيں، جہاں وسط اپريل تک 798 افراد يا تو ہلاک ہو چکے ہيں يا تاحال لاپتہ ہيں۔ پناہ کی تلاش ميں افريقہ يا ديگر خطوں سے براستہ بحيرہ روم يورپ پہنچنے کی کوششوں کے دوران جنوری ميں 257، فروری ميں 231، مارچ ميں 304 اور اپريل ميں اب تک چھ افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
سينکڑوں نامعلوم شناخت والے لاپتہ يا ہلاک
سال رواں ميں جنوری سے لے کر اپريل تک دنيا بھر ميں 496 ايسے افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں جن کی شناخت واضح نہيں۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے 191 افراد کا تعلق ايک سے زيادہ ملک يا خطے سے تھا۔ زیریں صحارا افريقہ کے 149، قرن افريقی خطے کے ملکوں کے 241، لاطينی امريکی خطے کے 172، جنوب مشرقی ايشيا کے 44، مشرق وسطیٰ و جنوبی ايشيا کے پچيس افراد اس سال گمشدہ يا ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Morenatti
سن 2016 ميں تقریبا آٹھ ہزار مہاجرين ہلاک يا لاپتہ
سن 2016 ميں عالمی سطح پر لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی مجموعی تعداد 7,872 رہی۔ پچھلے سال بھی سب سے زيادہ ہلاکتيں يا گمشدگياں بحيرہ روم ميں ہوئيں اور متاثرين کی مجموعی تعداد 5,098 رہی۔ سن 2016 کے دوران شمالی افريقہ کے سمندروں ميں 1,380 افراد، امريکا اور ميکسيکو کی سرحد پر 402 افراد، جنوب مشرقی ايشيا ميں 181 جب کہ يورپ ميں 61 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔
پچھلے سال بھی افريقی خطہ سب سے زيادہ متاثر
پچھلے سال افريقہ کے 2,815 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے ايک سے زائد ملک کی شہريت کے حامل مہاجرين کی تعداد 3,183 رہی۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ايشيائی خطے کے 544، جنوب مشرقی ايشيا کے 181 جبکہ لاطينی امريکا و کيريبيئن کے 675 مہاجرين سن 2016 ميں لقمہ اجل بنے۔ پچھلے سال بغير شہريت والے 474 مہاجرين بھی لاپتہ يا ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/G. Moutafis
جنوب مشرقی ايشيا بھی متاثر
پناہ کے سفر ميں اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی زندگی کو خيرباد کہہ دينے والوں کی تعداد سن 2015 ميں 6,117 رہی۔ اُس سال بھی سب سے زيادہ 3,784 ہلاکتيں بحيرہ روم ہی ميں ہوئيں۔ 2015ء ميں بحيرہ روم کے بعد سب سے زيادہ تعداد ميں ہلاکتيں جنوب مشرقی ايشيا ميں رونما ہوئيں، جہاں 789 پناہ گزينوں کے بہتر زندگی کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ يہ وہی سال ہے جب ميانمار ميں روہنگيا مسلمانوں کا معاملہ بھی اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
روہنگيا بھی پناہ کی دوڑ ميں گُم ہو گئے
سن 2015 کے دوران بحيرہ روم سے متصل ممالک کے 3784 مہاجرين، جنوب مشرقی ايشيا کے 789 جبکہ شمالی افريقہ کے 672 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر نے سن کے دوران پناہ کے سفر کے دوران ہلاک ہونے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تين سو بتائی تھی۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
شناخت واضح نہيں يا وجہ کوئی اور؟
دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی سن 2014 ميں مجموعی تعداد 5,267 تھی۔ ہلاکتوں کے لحاظ سے اس سال بھی بحيرہ روم اور جنوب مشرقی ايشيائی خطے سر فہرست رہے، جہاں 3,279 اور 824 ہلاکتيں ہوئيں۔ اس سال ہلاک ہونے والے قريب ايک ہزار افراد کی شناخت واضح نہيں تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Palacios
سن 2000 سے اب تک چھياليس ہزار ہلاک
’مسنگ مائگرينٹس پراجيکٹ‘ بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت کا ايک ذيلی منصوبہ ہے، جس ميں پناہ کے سفر کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہو جانے والوں کے اعداد و شمار پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس ادارے کے مطابق سن 2000 سے لے کر اب تک تقريباً چھياليس ہزار افراد سياسی پناہ کے تعاقب ميں اپنی جانيں کھو چکے ہيں۔ یہ ادارہ حکومتوں پر زور ديتا ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کيا جائے۔