بدامنی کے شکار ایرانی صوبے میں چار سکیورٹی اہلکار ہلاک
19 دسمبر 2022
ایران کے جنوب مشرق میں پاکستانی سرحد کے قریب واقع علاقے میں کیے گئے ایک حملے میں چار سرکاری سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق یہ ’دہشت گردانہ‘ حملہ بدامنی کے شکار صوبے سیستان بلوچستان میں کیا گیا۔
اشتہار
ایرانی دارالحکومت تہران سے پیر انیس دسمبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق حکام نے ایران میں اس حملے کو 'دہشت گردی کی مجرمانہ کارروائی‘ قرار دیا ہے۔ جس صوبے میں یہ حملہ کیا گیا، وہاں مسلسل حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے بھی جاری ہیں اور اس ایرانی خطے میں انتہا پسند بھی کافی سرگرم ہیں۔
سرکاری میڈیا کے مطابق ہلاک ہونے والے چاروں سکیورٹی اہلکار ایران کی محافظین انقلاب کور کے ارکان تھے، جو صوبے سیستان بلوچستان کے شہر سراوان میں کیے گئے ایک 'دہشت گردانہ‘ حملے میں مارے گئے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد اس ایرانی صوبے سے متصل ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے اِرنا نے بتایا کہ جس مقام پر یہ خونریز حملہ کیا گیا، وہاں سکیورٹی دستوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کےباعث حملہ آوروں کے گروہ کے ارکان فرار ہو کر پاکستانی علاقے کی طرف چلے گئے۔
بلوچ نسل کی سنی مسلم اقلیتی آبادی والا ایرانی صوبہ
سیستان بلوچستان کا صوبہ ایران کے غریب ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے اور وہاں بڑی تعداد میں بلوچ نسلی اقلیت کے ارکان آباد ہیں۔ یہ بلوچ اقلیت مذہبی طور پر سنی مسلم عقیدے کی حامل ہے جبکہ باقی ماندہ ایران میں شیعہ عقیدے کی حامل مسلم آبادی کی اکثریت ہے۔
ایران کے اس علاقے میں ماضی میں منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے مجرموں کے منظم گروہوں اور سرکاری دستوں کے مابین کئی مرتبہ بڑی خونریز جھڑپیں بھی دیکھی جا چکی ہیں۔
اس کے علاوہ صوبے سیستان بلوچستان میں بلوچ نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے باغیوں اور سنی مسلم عسکریت پسندوں کے مابین بھی کئی بار مسلح تصادم دیکھنے میں آ چکے ہیں۔
مجموعی طور پر سیستان بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت زاہدان میں ان مظاہروں میں درجنوں افراد مارے گئے تھے، جن میں کم از کم چھ سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔
مقامی حکام کے مطابق زاہدان میں یہ عوامی مظاہرے اس وقت شروع ہوئے تھے جب ایک مقامی ٹین ایجر لڑکی کو ایک پولیس افسر نے مبینہ طور پر ریپ کیا تھا۔
م م / ا ا (اے پی، اے ایف پی)
ایرانی مظاہرین کے ساتھ دنیا بھر میں اظہار یکجہتی
ایران کی اخلاقی امور کی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد تہران حکومت مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر دنیا بھر میں ہزارہا افراد نے ایک بار پھر مظاہرے کیے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
پیرس
دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسط میں اتوار کے روز مظاہرین نے ’پلاس دے لا رےپُبلیک‘ سے ’پلاس دے لا ناسیون‘ تک مارچ کیا اور ’اسلامی جمہوریہ مردہ باد‘ اور ’آمر کی موت‘ کے نعرے لگائے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
استنبول، دیار باقر اور ازمیر
ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ مظاہروں میں متعدد ایرانی خواتین بھی شامل تھیں۔ سینکڑوں مظاہرین نے ایرانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ وہ ’خواتین، زندگی، آزادی‘ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔ ترکی کے کُرد اکثریتی آبادی والے صوبے دیار باقر میں خاص طور پر خواتین نے ایرانی مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ مھسا امینی بھی کُرد نسل کی ایرانی شہری تھیں۔ اس کے علاوہ ترکی کے شہر ازمیر میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Emrah Gurel/AP/picture alliance
برلن
جرمن دارالحکومت برلن میں تقریباﹰ پانچ ہزار افراد نے ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے خواتین پر تشدد کے خلاف بین الاقوامی یکجہتی اور خواتین کے قتل کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی باشندوں کے ایک ترجمان نے خونریزی بند کیے جانے اور ایران میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
تصویر: Annette Riedl/dpa/picture alliance
بیروت
مشرق وسطیٰ میں بھی بہت سے شہری ایران میں احتجاجی تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لبنانی دارالحکومت بیروت میں مظاہرین قومی عجائب گھر کے باہر جمع ہوئے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
تصویر: MOHAMED AZAKIR/REUTERS
لاس اینجلس
امریکہ میں بھی بہت سے مظاہرین ایران میں خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے، جیسا کہ اس تصویر میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے سٹی ہال کے باہر۔ اس موقع پر موسیقاروں کے ایک گروپ نے روایتی ایرانی فریم ڈرم بجائے۔ اس کے علاوہ لندن، ٹوکیو اور میڈرڈ میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: BING GUAN/REUTERS
شریف یونیورسٹی، تہران
مظاہروں کے آغاز سے ہی ایرانی یونیورسٹیوں کے طلبا بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اور اس کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ تہران میں سکیورٹی فورسز نے شریف یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا اور پروفیسروں کے خلاف کارروائی کی۔ ایرانی شہر اصفہان میں اتوار کے روز ہونے والے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔