بدترین شکست: حکومتی اتحاد اقتدار میں کیوں رہنا چاہتا ہے؟
عبدالستار، اسلام آباد
19 جولائی 2022
ضمنی انتخابات میں شکست اور عمران خان کے دباؤ کے باوجود ن لیگ اور پی پی پی نے یہ بات واضح کردی ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گے۔
اشتہار
حکومتی اتحاد کے اس رویے کے باعث کئی حلقوں میں یہ بحث ہورہی ہے کہ آخر موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے پر کیوں تلی ہوئی ہے، جس کے لیے اس کو سخت فیصلے بھی کرنے ہوں گے۔
واضح رہے کہ آج وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پی ٹی آئی کے قبل از وقت انتخابات کے مطالبے پر اپنا سخت موقف دیتے ہوئے کہا، '' کان کھول کر سن لو انتخابات تب ہوں گے، جب حکومت اور الیکشن کمشن چاہیں گے۔‘‘
حالانکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے انتخابات کرانے کے حوالے سے اتحادی جماعتوں کو آج لاہور میں ایک اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے لیکن وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ ان کی پارٹی اس موقف پر قائم رہے گی کہ انتخابات اگلے برس ہوں۔ انہوں نے پیر کو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ صلح و مشورے سے نئے انتخابات کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جائے گا لیکن اس حوالے سے ن لیگ کا موقف تبدیل نہیں ہوا ہے اور پارٹی اس بات پر قائم ہے کہ انتخابات اگلے برس ہوں۔
اشتہار
پی ڈی ایم اقتدار میں رہنا کیوں چاہتی ہے؟
ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد پاکستان میں کئی مبصرین یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ شاید حکومت قبل از وقت انتخابات کے لیے راضی ہوجائے لیکن حکومتی وزراء کے موقف نے ان مبصرین کو حیران کر دیا ہے۔ کئی حلقوں میں اب حکومتی وزراء کے ان بیانات پر بحث ہورہی ہے۔ معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے خیال میں ن لیگ اقتدار میں رہنا اس لیے چاہتی ہے تا کہ وہ آگے جا کر عوام کو کچھ ریلیف دے سکے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت نے سخت فیصلے کر کے پہلے ہی عوامی ناراضگی مول لے لی ہے اور اگر ایسے میں وہ انتخابات میں جاتے ہیں تو ان کے لیے بہت مشکلات ہوں گی۔ تو میرے خیال میں وہ اب پاپولر فیصلے کرینگے اور عوام کو بڑے پیمانے پر ریلیف دینے کی کوشش کرینگے تاکہ وہ عوام کے پاس کچھ لے کر جا سکیں۔‘‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر حکومت کسی بھی طرح پاکستانیوں کو عوامی پیکج نہیں دے سکتی۔ لیکن سہیل وڑائچ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ''معاشی حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں نیچے جارہی ہیں اور میرے خیال میں حکومت انتظار کر رہی ہے کہ عالمی سطح پر تیل، گندم اور دوسری اشیاء کی قیمتیں کم ہوں اور پھر وہ عوام کو کوئی پیکج دیں اور پھر انتخابات کی طرف جائیں۔‘‘
حکومت خوف کا شکار ہے
تاہم جمعیت علماء اسلام کے سابق رہنما حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ حکومت موجودہ حالات میں سخت خوف کا شکار ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو نااہل کر کے اور سزائیں دے کر مسلم لیگ ن کو اتنا کمزور نہیں کیا جتنا شہباز شریف نے اپنی پالیسیوں سے کیا۔ ایسے کمزور حالات میں اگر یہ الیکشن میں جاتے ہیں تو نہ صرف یہ بری طرح ہاریں گے بلکہ قوی امکان ہے کہ عمران خان دو تہائی اکثریت حاصل کر لیں۔ اس لیے یہ اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔‘‘
تاہم حافظ حسین احمد کا کہنا تھا کہ حالات اس نہج پر جارہے ہیں، جہاں ان کی اقتدار میں ٹکنے کی خواہش پوری نہیں ہوگی اور انہیں بھاگنا پڑے گا۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔