بدحال مہاجر کیمپ عوامی صحت کے لیے بھی خطرہ، یونانی میئرز
عاطف بلوچ21 اپریل 2016
یونانی دارالحکومت ایتھنز کے نواح میں پانچ ساحلی علاقوں کے میئرز نے خبردار کیا ہے کہ شہر کے ایک مضافاتی مہاجر کیمپ میں حفظان صحت کی بری صورت حال کے باعث مقامی آبادی کو بھی شدید طبی مسائل اور پیچیدگیوں کا خطرہ ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے یونانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہیلینیکون Hellinikon میں واقع اس مہاجر کیمپ کے حالات نامناسب ہیں اور اس لیے وہاں پیدا ہونے والے ممکنہ طبی مسائل سے مقامی آبادی کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس کیمپ میں چار ہزار مہاجرین اور تارکین وطن مقیم ہیں۔ ہیلینیکون میں واقع یہ کیمپ ملکی دارالحکومت ایتھنز کے نواح ہی واقع ہے۔
ایتھنز کے مضافات میں واقع پانچ مختلف علاقوں کے میئرز نے اپنی اس تشویش کو ایک خط کے ذریعے وزیر اعظم الیکسس سپراس تک بھی پہنچا دیا ہے۔ ایتھنز کے پرانے ایئر پورٹ کے علاقے میں بنائے گئے اس مہاجر کیمپ کے حالات کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس خط میں لکھا گیا، ’’صورتحال قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے صحت عامہ کو شدید مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘‘
ہیلینیکون کے مہاجر کیمپ میں مجموعی طور پر چار ہزار ایک سو تریپن مہاجرین آباد ہیں۔ ان میں بچوں والے کنبے بھی شامل ہیں۔ یہ مہاجرین گزشتہ ماہ سے وہاں انتہائی ابتر صورتحال میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس علاقے کے مقامی میئر ڈائنوسس ہاٹزی ڈاکسی نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اس کیمپ میں موجود مہاجرین کی تعداد گنجائش سے کہیں زیادہ ہے۔ انہیں حفظان صحت کے سنگین مسائل کا بھی سامنا ہے۔‘‘
مقدونيہ کی سرحد پر پھنسے پناہ گزين
مقدونيہ نے يونان کے ساتھ اپنی سرحد پر تين کلوميٹر طويل باڑ لگانے کا کام مکمل کر ليا ہے۔ اس دوران وہاں پھنسے مہاجرين کے درميان کشيدگی بڑھ رہی ہے، جس پر قابو پانے کے ليے غير سرکاری تنظيموں نے حکومت سے مدد کا مطالبہ کيا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
يونانی علاقے ميں بے يار و مددگار
مقدونيہ کی سرحد پر پاکستانی پناہ گزين حسن اور محمد صغير خود کو گرم رکھنے کے ليے کوڑے کے ڈھير کو آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہيں۔ مقدونيہ، سربيا اور سلووينيا کی جانب سے ’محفوظ‘ ملکوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرين کو روکنے کے فيصلے کے بعد سے يہ دونوں بھائی يونانی علاقے اڈومينی ميں پھنس گئے ہيں۔ بلقان خطے کے چند ملکوں کے حاليہ اقدام کے نتيجے ميں اس مقام پر ڈيڑھ تا دو ہزار مہاجرين پھنسے ہوئے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سخت سردی ميں کھلے آسمان تلے
’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے تعاون سے اس مقام پر قريب دو ہزار پناہ گزينوں کے ليے تين بڑے خيمے کھڑے کر ديے گئے ہيں، جن ميں گرم رکھنے کا انتظام بھی ہے۔ تاہم ادارے کے اڈومينی ميں فيلڈ کوآرڈينيٹر انتونس ريگاس کے بقول اب بھی ايک ہزار کے لگ بھگ مہاجرين رات کے وقت چھ ڈگری درجہ حرارت ميں کھلے آسمان تلے سو رہے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مدد اور تعاون کا فقدان
مراکش سے تعلق رکھنے والا ايک نوجوان سرحد کھلنے کا منتظر ہے تاہم ريگاس کے بقول اس کے امکانات کافی کم ہی ہيں۔ انہوں نے بتايا، ’’ہم درخواست کر رہے ہيں کہ حکومت کی جانب سے کم از کم تين نمائندے يہاں بھيجے جائيں جو کيمپ چلانے ميں مدد کر سکيں۔ يہاں کے مکمل انتظامات کی نگران اب غير سرکاری تنظيميں ہی ہيں۔ ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی ذمہ داری نہيں کہ وہ حکومت کا کام سر انجام دے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہريت کی بنياد پر تقسيم
اس وقت يوميہ بنيادوں پر سينکڑوں شامی، عراقی اور افغان شہری يونان سے مقدونيہ ميں داخل ہو رہے ہيں جبکہ پيچھے رہ جانے والے الجھن کا شکار ہيں۔ بتيس سالہ بنگلہ ديشی دکاندار شيامال رابی کہتا ہے کہ وہ غير قانونی طور پر يورپ جانے کا خواہشمند نہيں۔ اس کا مزيد کہنا ہے، ’’ہم بھی انسان ہيں، ہمارے بھی کچھ حقوق ہيں۔ اگر تين ملکوں کے لوگوں کو آگے بڑھنے کی اجازت ہے، تو ہميں بھی يہ اجازت ملنی چاہيے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
پناہ گزينوں کے درميان کشيدگی بڑھتی ہوئی
مشکل حالات اکثر اوقات غصے کو جنم ديتے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ کيمپوں ميں مہاجرين کے مختلف گروپوں کے مابين لڑائی جھگڑے کے مناظر معمول کی بات ہيں۔ نيپالی باشندے راج کا کہنا ہے کہ ايک ايرانی نے اس کے منہ پر مکا مارا تھا۔ گزشتہ جمعے کے روز ايک غير ساکاری تنظيم کے ڈاکٹروں نے دو شمالی افريقی پناہ گزيوں کے زخموں پر پٹی باندھی، جنہيں چاقو کے وار سے يہ زخم آئے تھے۔ کھانے کے تقسيم کے وقت سے اکثر جھگڑے ہوتے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
احتجاج جو کبھی پر امن تھا، پر تشدد ہوتے ہوئے
گزشتہ ہفتے يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر پھنسے ہوئے مہاجرين نے سوئی دھاگے کی مدد سے احتجاجاً اپنے منہہ سی ڈالے اور بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی۔ تاہم يہ مظاہرے پر امن کچھ ہی وقت کے ليے رہے اور پھر جمعرات اور ہفتے کے روز مہاجرين کی حکام کے ساتھ جھڑپيں رپورٹ کی گئيں۔ ايک امدادی کارکن کے بقول پناہ گزين کافی برہم ہيں۔ کئی مہاجرين شراب نوشی بھی کرنے لگے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگامی حالت
UNHCR سے وابستہ اليگزاندروس وولگارس کا کہنا ہے کہ وہاں صرف تيس ہی منٹ ميں حالات تبديل ہو سکتے ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم کسی چيز کی منصوبہ بندی نہيں کر سکتے، يہ ہنگامی صورتحال ہے اور ہماری کوشش صرف يہی ہے کہ لوگوں کو محفوظ رکھا جائے۔‘‘ وولگارس کا کہنا ہے کہ وہ پناہ گزينوں سے گزارش کر رہے ہيں کہ وہ يونانی دارالحکومت جائيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’وہ چاہتے ہيں کہ ہم جنگ کا حصہ بنيں‘
بائيس سالہ يمنی پناہ گزين رامی التھاری اپنے فون پر صناء ميں تباہ کاريوں کے مناظر دکھا رہا ہے۔ وہ ديگر گيارہ يمنی پناہ گزينوں کے ساتھ سفر کر رہا ہے، جنہيں حوثی باغيوں کی صفوں ميں شامل ہونے پر مجبور کيا گيا تھا۔ ’’وہ چاہتے ہيں کہ ہم جنگ کريں ليکن ہم نہيں لڑيں گے۔ ہميں ورنہ سعودی مار ديں گے۔ اسی ليے جب تک سرحد نہيں کھلتی، ہم يہيں انتظار کريں گے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
ايک اور الميہ
ايک يونانی ورکرز يونين کے ارکان نے ہفتے کے روز يہاں مختلف چيزيں تقسيم کيں۔ يونين کے صدر کا کہنا ہے کہ اگر اس مقام پر جلد ہی مسائل کا حل تلاش نہ کيا جا سکا، تو يہ اگلا Calais ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول وہاں ميسر سہوليات ناکافی ہيں اور موسم سرما کی آمد کے ساتھ مہاجرين اپنے مقاصد کے حصول کے ليے متبادل راستے تلاش کريں گے۔ انہوں نے مزيد کہا کہ اسمگلر بھی کافی چالاک ہوتے ہيں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’پلان بی‘ کيا ہے؟
مقدونيہ نے يونان کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا کام اتوار کی دن مکمل کر ليا ہے۔ يونان ميں Medecins du Monde کے صدر نيکيتاس کناکس کے بقول اس مقام پر پھنسے ہوئے لوگوں کی مدد کے ليے دنيا بھر سے لوگ موجود ہيں ليکن يونانی حکومت کا کوئی نمائندہ نہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ہميں خدشہ ہے کہ آئندہ کچھ دنوں ميں سرحد مکمل طور پر بند کر دی جائے گی۔ اگر ہم سب کو ايتھنز منتقل کر بھی ديتے ہيں، تو پھر کيا ہو گا؟‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
ڈائنوسس اور چار دیگر میئرز کے مطابق یونان میں وبائی بیماریوں کے تدارک کے ملکی ادارے KEELPNO کو بھی اس صورتحال سے مطلع کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق کیمپ میں بڑی تعداد میں افراد کی رہائش کے مناسب انتظامات نہیں ہیں جبکہ وہاں رہنے والوں کو عارضی طور پر بنائی جانے والی صرف 40 کیمیکل ٹائلٹس دستیاب ہیں۔
ان منتخب عوامی نمائندوں نے اس کیمپ میں مہاجرین اور تارکین وطن کے مابین ہونے والے آپس کے لڑائی جھگڑوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ملکی وزارت داخلہ سے درخواست کی ہے کہ اس کیمپ میں سکیورٹی اہلکاروں کی نفری بڑھائی جائے تاکہ کسی بھی بڑے ناخوشگوار واقعے کو روکا جا سکے۔
ان عوامی نمائندوں کے مطابق وہ مہاجرین اور مقامی آبادی دونوں کی ہی سلامتی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں اور اسی لیے کیمپ میں صحت عامہ اور سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے مطالبات کر رہے ہیں۔
بلقان کی ریاستوں کی طرف سے سرحدی گزرگاہوں کے بند کیے جانے کے بعد بہت سے مہاجرین یونان میں ہی پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اس صورتحال میں یونانی حکومت کو مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مناسب سہولیات فراہم کرنے کے عمل میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔