بدخشاں میں قائم مقام گورنر بھی خود کش بم حملے میں ہلاک
6 جون 2023
افغانستان کے شمالی صوبے بدخشاں میں منگل چھ جون کے روز کیے گئے ایک خود کش بم حملے میں قائم مقام صوبائی گورنر بھی ہلاک ہو گئے۔ چند ماہ قبل اسی صوبے کے پولیس سربراہ بھی داعش کے ایک بڑے بم حملے میں مارے گئے تھے۔
اشتہار
بدخشاں کے صوبائی دارالحکومت فیض آباد سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ہندوکش کی ریاست افغانستان میں اگست 2021ء میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک سلامتی کی مجموعی صورت حال اگرچہ کافی بہتر ہوئی ہے تاہم ملک میں دہشت گرد تنظیم داعش یا 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کی طرف سے خونریز حملے اب بھی وقفے وقفے سے دیکھنے میں آتے ہیں۔
واضح ہدف گورنر ہی تھے
منگل کے روز کیے جانے والے حملے میں ایک خود کش حملہ آور نے اپنی بارودی مواد سے لدی ہوئی گاڑی اس گاڑی سے ٹکرا دی، جس میں بدخشاں کے مقائم مقام گورنر نثار احمد احمدی سفر کر رہے تھے۔ یہ بم حملہ صوبائی دارالحکومت فیض آباد میں کیا گیا۔
نثار احمد احمدی ماضی میں بدخشاں کے نائب گورنر تھے اور انہیں گزشتہ ماہ ہی اس افغان صوبے کا قائم مقام گورنر نامزد کیا گیا تھا۔
فیض آباد میں صوبائی محکمہ اطلاعات و ثقافت کے سربراہ معاذالدین احمدی نے بتایا، ''اس حملے کا واضح ہدف وہی گاڑی تھی، جس میں نگران گورنر نثار احمد احمدی سفر کر رہے تھے۔‘‘
اس حملے میں گورنر احمدی اور ان کا ڈرائیور دونوں مارے گئے جبکہ چھ دیگر افراد زخمی بھی ہوئے۔ ابھی تک کسی بھی عسکریت پسند گروہ نے اس خود کش حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
اشتہار
صوبائی پولیس سربراہ کی ہلاکت
بدخشاں کے عبوری گورنر احمدی کے قتل سے پہلے اسی افغان صوبے میں پولیس فورس کے سربراہ بھی گزشتہ برس دسمبر میں ایسے ہی ایک خود کش بم حملے میں مارے گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کر لی تھی۔
اس سے بھی پہلے گزشتہ سال اپریل میں اسی صوبے میں کان کنی کے محکمے کے سربراہ بھی ایک بم حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
افغانستان میں برسراقتدار طالبان اور ممنوعہ دہشت گرد تنظیم داعش دونوں ہی کٹر اور بہت قدامت پسند سنی اسلامی سوچ کے حامی ہیں۔ دونوں میں تاہم ایک فرق یہ بھی ہے کہ طالبان افغانستان کو ایک آزاد اور اسلامی مذہبی ریاست بنانا چاہتے ہیں جبکہ داعش اپنے طور پر بین الاقوامی سطح پر خلافت کے قیام کے لیے کوشاں ہے اور ایسا وہ ماضی میں شام اور عراق کے کئی علاقوں پر مشتمل دولت اسلامیہ کہلانے والی نام نہاد خلافت کے قیام کے اعلان کے ساتھ کر بھی چکی ہے۔
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنےکے بعد سے افغانستان میں داعش اپنے خونریز حملوں میں تاحال سینکڑوں افراد کو ہلاک یا زخمی کر چکی ہے۔ ان میں کئی ایسے غیر ملکی بھی تھے، جنہیں باقاعدہ ہدف بنا کر ہلاک کیا گیا۔ داعش کی اس خونریزی کا مقصد طالبان کی حکومت کو ناکام بنانا ہے۔
م م / ش ر (اے ایف پی، ڈی پی اے)
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔